جامع اضداد زندگی
پس صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی اس اعلیٰ ترین زندگی کا نور تیز بھی ہے اور پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم سے اقرب تر اور اشبہ تر بھی ہے کہ اس نے نبوت کی زندگی سے متصل رہ کر اس کی شعاعوں کا نور قبول کیا ہے ۔اس لئے زندگی نہ صرف عزیمتوں کی زندگی اور اولوالعزمانہ زندگی ہے کہ جائزات کی آڑ لئے بغیر عمل کے اعلیٰ ترین حصہ ہی کو اپنا لیا جائے اور نفس کی راحت طلبیوں کو خیر باد کہہ کر عملی مجاہدہ و ریاضت ہی کو زندگی بنا لیا جائے بلکہ یہ زندگی جامع اضداد بھی ہے جو کمالِ اعتدال لئے ہوئے ہے کہ ایک طرف نفس کشی بھی انتہائی اور ساتھ ہی ادب شریعت اور اتباع سنن نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی انتہائی اور ایک طرف طبعی جذبات بھی قائم اور دوسری طرف عقلی و داعی اور ملکیّت بھی غالب اس کمال اعتدالِ و جامعیت کے ساتھ یہ زندگی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے سوا اُمت کے کسی طبقہ کو طبقاتی حیثیت سے نصیب نہیں۔
آحاد و افراد اس زندگی کے حامل نظر پڑیں گے۔ جس میں شرف صحابیت کے سوا سب کچھ ہوگا ، لیکن طبقہ کا طبقہ ایک ہی رنگ میں رنگا ہوا ہو اور ہمہ وقت اخلاص و معرفت کی حد کمال کو طے کئے ہوئے ہو۔ طبقۂ صحابہ رضی اﷲ عنہم کے سوا دوسرا نہیں۔ جنہوں نے گھر بار چھوڑ کر اور نفس کی خواہشات سے منہ موڑ کر صرف اور صرف رضائے حق کو اپنی زندگی بنایا۔ مرغوبات کو شرعی مطلوبات پر قربان کر دیا۔
موطن طبیعت سے ہجرت کر کے موطنِ شریعت میں آکر بس گئے اور شرعی مرادوں کی خاطر نفس کی حیلہ جوئیوں اور راحت طلبیوں سے کنارہ کش ہو کر عزم صادق کے ساتھ ہمہ تن مرضیات الٰہی اور سنن نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی میں مستغرق ہوگئے اور اسی کو اپنی زندگی بنا لیا۔
اس جامع اور جامع اضداد زندگی کا سب سے زیادہ نمایاں اور حیرت ناک پہلو یہ ہے کہ وہ کلیۃً تارک دنیا بھی تھے اور رہبانیت سے الگ بھی۔
دنیا اور دنیا کے جاہ و جلال ، دھن و دولت ، حکومت و سیاست ، گھر بار ، زمین ، جائیداد کے ہجوم میں بھی تھے اور پھر ادائے حقوق میں بے لاگ بھی۔
یہ زن ، زر ، زمین ان کے تصرف میں بھی تھی اور پھر قلباً ان سب چیزو ں سے بے تعلق اور کنارہ کش بھی ، درویش کامل بھی ہیں قباشاہی بھی زیب تن ہے۔
حکمران بھی ہیں اور دلق گدائی بھی کندھوں پر ہے۔ ممالک بھی فتح کر رہے ہیں اور فقیری کی خو بھی بدستور قائم ہے۔
یوں بہم کس نے کئے ساغر سندال دونوں
