تواضع اور احساسِ کمتری میں کیا فرق ہے؟

تواضع اور احساسِ کمتری میں کیا فرق ہے؟ (ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی)۔

ارشاد فرمایا کہ آج کل علمِ نفسیات کا بڑا زور ہے اور علمِ نفسیات میں سے ایک چیز آج کل لوگوں میں بہت مشہور ہے، وہ ہے احساسِ کمتری ۔ اس کو بہت برا سمجھا جاتا ہے کہ احساسِ کمتری بہت بری چیز ہے ، اگر کسی میں یہ پیدا ہوجائے تو اس کا علاج کیا جاتا ہے ۔

ایک صاحب نے سوال کیا کہ جب آپ لوگوں سے یہ کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو مٹاؤ تو اس کے ذریعے آپ لوگوں کے اندر احساسِ کمتری پیدا کرنا چاہتے ہیں تو کیا یہ بات درست ہے کہ لوگ اپنے اندر احساسِ کمتری پیدا کریں؟
بات دراصل یہ ہے کہ تواضع اور احساسِ کمتری میں فرق ہے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے علمِ نفسیات ایجاد کی انہیں دین کا علم یا اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں کوئی علم تھا ہی نہیں، انہوں نے ایک احساسِ کمتری کا لفظ اختیار کرلیا حالانکہ اس میں بہت سی اچھی باتیں شامل ہوجاتی ہیں ، ان کو احساسِ کمتری کہہ دیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں تواضع اور احساسِ کمتری میں فرق ہے۔

دونوں میں فرق یہ ہے کہ احساسِ کمتری میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق پر شکوہ اور شکایت ہوتی ہے ، یعنی احساسِ کمتری میں انسان کو یہ خیال ہوتا ہے کہ مجھے محروم اور پیچھے رکھا گیا ہے ۔ میں مستحق تو زیادہ کا تھا لیکن مجھے کم ملا یا مثلاََ یہ احساس کہ مجھے بد صورت پیدا کیا گیا، مجھے دولت کم دی گئی ، میرا رتبہ کم رکھا گیا، اس قسم کے شکوے اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور پھر اس شکوے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی طبیعت میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے اور پھر اس احساسِ کمتری کے نتیجے میں انسان دوسروں سے حسد کرنے لگتا ہے اور اس کے اندر مایوسی پیدا ہوجاتی ہے کہ اب مجھ سے کچھ نہیں ہوسکتا ، بہرحال احساسِ کمتری کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے شکوے پر ہوتی ہے۔

جہاں تک تواضع کا تعلق ہے یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر شکوے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات پر شکر کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے ۔ تواضع کرنے والا یہ سوچتا ہے کہ میں تو اس قابل نہیں تھا کہ مجھے یہ نعمت ملتی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے یہ نعمت عطا فرمائی ، یہ ان کا کرم اور ان کی عطا ہے ، میں تو اس کا مستحق نہیں تھا۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ احساسِ کمتری اور تواضع میں کتنا بڑا فرق ہے ۔ اس لیے تواضع محبوب اور پسندیدہ عمل ہے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو رفعت اور بلندی عطا فرماتے ہیں۔

۔(اصلاحی خطبات، جلد۵، صفحہ ۴۹)۔

یہ ملفوظات حضرت ڈاکٹر فیصل صاحب نے انتخاب فرمائے ہیں ۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

Most Viewed Posts

Latest Posts

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی چنانچہ سلف سے لے کر خلف تک اختلافی مسائل میں ایسے ہی جامع افراد کی تقلیدِ معین بطور دستور العمل کے شائع ذائع رہی ہے اور قرنِ صحابہ ہی سے اس کا وجود شروع ہوگیا تھا۔ مثلاً حدیث حذیفہ میں جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ارشادِ نبوی ہے:انی...

read more

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس پر غور کیجئے کہ اس ہرجائی پن اور نقیضین میں دائر رہنے کی عادت کا...

read more

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار غور کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں ان ساتوں سنابل کا خلاصہ چار ارکان:۔۔ 1ایمان 2اسلام 3احسان 4 اور اعلاء کلمۃ اللہ ہیںجو حقیقتاً انہارِ اربعہ ہیں۔ ’’نہران ظاہران و نہران باطنان‘‘ ایمان و احسان باطنی نہریں ہیں اور اسلام و اعلاء کلمۃ اللہ...

read more