تنبیہ
آخر میں اس امر پر تنبیہ بھی ضروری ہے چونکہ دین کا معاملہ بہت اہم ہے۔ عصمت انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے اور حفاظت صحابہ کرام کے لئے مختص ہے۔ باقی سلف صالحین یا اکابر پر اعتماد کی اہمیت اوپر ظاہر کی گئی ہے اس سے یہ ہرگز مرادنہیں کہ ان کی علی الاطلاق پیروی کا حکم ہے بلکہ بوجہ بشریت ان سے علمی خطا ہونا عملی کوتاہی… اس خطامیں ان کی پیروی بھی نہیں کرنی اور بے ادبی سے بھی گریز کیا جائے گا۔
کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ جیسے صاحب مجالس ابرار لکھتے ہیں کہ ایک بڑے محدث عالم نے رکن یمانی کا استلام کرلیا۔ تو کسی نے متوجہ کیا کہ رکن یمانی کو بوسہ دینا تو جائز نہیں۔ تو فرمایا کہ مجھ سے سہو ہوگیا میں نے رکن یمانی کو حجر اسود سمجھ لیا تھا (اژدہام ہجوم سے نظر نہیں آیا) تو عمل کو کتاب سے ملایئے اور کتاب کو افراد ماہرین سے سمجھئے۔ (مجالس ابرار ص ۳۱ حصہ دوم)
البتہ کوئی شخص علماء امت کی اجتماعی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے کو شدومد کے ساتھ صحیح کہے اور یہ سمجھے کہ سلف معصوم تو نہ تھے:۔
ہُمْ رِجَالٌ نَحْنُ رِجَالٌ یہ بھی غلطی ہے اور اس ذہنیت سے انسان کسی وقت بھی بڑی سے بڑی گمراہی میں ہوسکتا ہے۔
لہٰذا مذکورہ بالا تنبیہ میں عرض کی گئی ہدایت کو مدنظر رکھ کر اپنے بڑوں کی اتباع اور ان کی فہم پر اعتماد کرکے شریعت کی پیروی کی جائے۔
(ڈی آئی خان)
