تقلید و اجتہاد پر ایک حکیمانہ منصفانہ تقریر
فرمایا کہ ایک عالم غیر مقلد مگر غیر متعصب یہاں آئے تھے میں نے ان سے کہا کہ تقلید کا مدار حسن ظن پر ہے۔ جس شخص کے متعلق یہ گمان غالب ہوتا ہے کہ وہ دین کے معاملہ میں کوئی بات بے دلیل شرعی کے نہیں کہتے اس کا اتباع کرلیا جاتا ہے اگرچہ وہ کوئی دلیل بھی مسئلہ کی بیان نہ کرے۔ اسی کا نام تقلید ہے اورجس شخص کے متعلق یہ اعتقاد نہیں ہوتا وہ دلیل بھی بیان کرے تو شبہ رہتا ہے۔ دیکھئے حافظ ابن تیمیہؒ اپنے فتاویٰ میں اور بعض رسائل مثلاً رسالہ مظالم میں محض احکام لکھتے ہیں کوئی دلیل نہیں لکھتے مگر غیر مقلد حضرات چونکہ ان کے معتقد ہیں کہ وہ بے دلیل بات نہیں کرتے اس لئے ان کی بات کو مانتے ہیں تو حنفیہ کو بھی یہ حق ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے بیان کئے ہوئے مسائل پر بایں اعتقاد عمل کرلیں کہ وہ کوئی بات بے دلیل نہیں فرمایا کرتے۔
پھر فرمایا کہ یہاں تک بات مساوات کی تھی کہ جس طرح غیر مقلد حضرات ابن تیمیہ ؒ کی بات بے دلیل بھی مان لیتے ہیں حنفیہ کو بھی یہی حق کیوں حاصل نہ ہو کہ وہ ابو حنیفہ کی بات بغیر دلیل کے محض حسن ظن کی بناء پر مان لیں۔
مگر اب میں آگے بڑھتا ہوں اور ایک مثال سے یہ واضح کرتا ہوں کہ ابن تیمیہؒ کے اجتہاد اور امام اعظم ابو حنیفہ ؒ بلکہ ان کے شاگردوں اور ان کے شاگردوں کے شاگردوں میں جو مجتہد ہوئے ہیں ان کے اجتہاد میں کیا فرق ہے۔ ابن تیمیہؒ نے کتاب مظالم میں لکھا ہے کہ اگر سلطان وقت کی طرف سے کوئی ظالمانہ ٹیکس اہل شہر کے ذمہ عائد کردیا جائے تو اس سے اپنے آپ کو بچانا مطلقاً جائز نہیں بلکہ یہ تفصیل ہے کہ اگر کوئی خاص رقم مجموعی طور پر معین نہ ہو تو جائز ہے اور اگر کوئی خاص معین رقم پورے شہر سے وصول کرنا ہے تو اس صورت میں اپنے آپ کو اس سے بچانا جائز نہیں کیونکہ یہ بچ گیا تو اس کا حصہ بھی دوسرے مسلمانوں پر پڑ جائے گا وہ مزید ظلم میں مبتلا ہوں گے اور یہ شخص اس کا سبب بنے گا۔(ملفوظات حکیم الامت جلد نمبر ۲۴)
