.تعلیم اور شادی کو آپس میں بالکل نہ جوڑیں (119)
اپریل 27سال دو ہزار چوبیس
جیو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ خواتین ایسی ہیں جن کی عمر 35 سال سے زائدہوچکی ہے اور وہ شادی کی منتظر ہیں۔ اتنی زیادہ تعداد تشویشناک ہے۔ کیونکہ ہمارا مذہب اسلام تو یہ کہتا ہے کہ بلوغت کے بعد ہی نکاح کی فکر شروع کردو چہ جائیکہ بیس پچیس تیس اور پھر پینتیس کی عمر کو بھی کوئی عورت گزار لے اور پھر بھی وہ کنواری بیٹھی ہو تو مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔
اس بارہ میں سوچئے اور یہ مضمون مکمل پڑھئے!۔
آئیے چند وجوہات کی طرف نظر کرتے ہیں جن کو ایک تسلسل کےساتھ عرض کرتا ہوں
کہانی شروع ہوتی ہے “لڑکی کو عزت دو” کے الفاظ کے ساتھ۔ ان الفاظ کے ساتھ یہ تصور دیا جاتا ہے کہ لڑکی کو تعلیم کے لئے اسکول، کالج اور پھر یونیورسٹی بھیجو۔ جب کوئی لڑکی گھریلو کام سیکھنے کی بجائے اس بے فائدہ تعلیم کے چکر میں پڑ جائے تو پھر اُسکی عمر برق رفتاری سے گزرتی ہے ۔ بالفرض اگر وہ ستائیس اٹھائیس سال کی عمر میں بھی تعلیم یعنی ماسٹرز سے فارغ ہوجائے تو صورتحال یہ ہوتی ہے کہ اب تک اسکی تعلیم پر تقریباً پچاس سے ساٹھ لاکھ روپیہ کم از کم خرچ ہوچکا ہوتا ہے۔ شومئی قسمت کہ معاشرہ میں ایسے والدین بھی موجود ہیں جن کی کوشش ہوتی ہے کہ اب لڑکی کچھ جاب وغیرہ کرکے ہمیں کما کرکھلائے تاکہ جو اسکی تعلیم پر خرچ ہوا ہے وہ ہم کو واپس مل جائے۔ نتیجتاً دو تین سال تک جاب کی کوشش ہوتی ہے اور پھر جب جاب لگ جاتی ہے مثلاً پچاس ہزار روپیہ ماہانہ بھی نوکری لگ جائے تو اب والدین کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ ایسا لڑکا ملے جس کی حیثیت پچاس ہزار روپیہ ماہانہ سے بہت زیادہ ہو۔
بس جی ۔۔۔ !!! اسی تگ و دو میں لڑکی کی عمر پینتیس سال سے اوپر چلی جاتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ پچیس سے پینتیس کی عمر لڑکی اور لڑکا دونوں کے لئے جوانی کی بہاریں دیکھنے کا وقت ہے۔ اسکے بعد جوانی کاڈھلنا شروع ہوجاتا ہے۔ اب یہ ایسا وقت ہے کہ لڑکی ہو یا لڑکا ہو ۔ اُسکی جنسی خواہش دم توڑ چکی ہوتی ہے وہ شادی کرلے گا اورگھر بھی بسا لے گا لیکن زندگی بھر اس پچھتاوے میں رہے گا کہ جوانی کی بہاریں نہ دیکھ سکا۔ اور لڑکی تو اس عمر کے بعد پھر شادی کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتی۔
اب دو باتیں اس کے حل کے لئے کہتا ہوں کہ یہ جو جملہ ہے “لڑکی کو عزت دو” اسکا مطلب صرف یہ نہیں کہ صنف نازک کو ذلالت وخواری سے بھرپور دنیوی تعلیم کے چکروں میں پھنسا دو۔ بلکہ مقصد یہ تھا کہ اُسکی تربیت ایسی کرو کہ وہ اپنی عزت کا دھیان کرسکے۔ اپنی عزت کا دفاع کرسکے اور اتنی سمجھ بوجھ اُسکو دے دو کہ وہ گھر بسانے اور بچوں کی پرورش میں اچھا کردار ادا کرسکے۔ لیکن اگر پھر بھی آپاپنی بیٹی کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں جو کہ اُسکا حق بھی ہے تو خداراتعلیم کو شادی کے ساتھ مت جوڑیں۔ شادی کا تعلیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ۔ مکرر عرض کرتا ہوں کہ حصول تعلیم کو شادی میں رکاوٹ نہ بنائیں۔
ورنہ نتیجہ جو کچھ کالج یونیورسٹیوں میں ظاہر ہورہا ہے وہ سب کو معلوم ہے کہ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بیٹی تعلیم حاصل کررہی ہے جب کہ وہ کیا حاصل کررہی ہے یہ حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے !!!الا ماشاء اللہ
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

