تجارت و کاروبار سے متعلق ہدایات اور سنتیں
۔(۱) نماز کے وقت کاروبار بند کرنا۔ (۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو بیچنے میں اور خریدنے میں اور تقاضا کرنے میں نرمی کرے۔ (بخاری و مسلم) … (۳) حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی تجارتی زندگی میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ تجارتی معاملات میں زیادہ قسمیں کھانا (ظاہراً تو) کاروبار کو رواج دیتا ہے مگر برکت کھو دیتا ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع)
وضاحت:…یعنی لوگ قسم پر اعتماد کرکے خریداری کی طرف مائل ہوں گے لیکن جس شخص کو زیادہ قسمیں کھانے کی عادت ہوگی تو اس سے جھوٹی قسموں کا صدور ہونے لگے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک تو باطنی طور پر اس کی تجارت کی خیر و برکت نکل جائے گی، دوسرے اس کا اعتبار آہستہ آہستہ اُٹھ جائے گا۔
حلال آمدنی کی کوشش کرنا
۔(۴)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ آدمی کو جو ملے گا وہ اس کی پروا نہیں کرے گا کہ یہ حلال ہے یا حرام ہے۔ (بخاری)
دُعا کے دو بازو ہیں ایک حلال کھانا دوسرا سچ بولنا
۔(۵) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ (تمام عیوب سے) پاک ہے۔ اس پاک ذات کی بارگاہ میں صرف وہی (اعمال) مقبول ہوتے ہیں جو (شرعی عیوب سے) پاک ہوں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم اپنے رسولوں کو دیا ہے اس چیز کا حکم تمام مؤمنوں کو بھی دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یایھا الرسل کلوا من الطیبت واعملوا صالحا‘‘ … ترجمہ:…یعنی اے رسولو! حلال روزی کھاؤ اور نیک اعمال کرو۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یایھا الذین اٰمنوا کلوا من الطیبت ما رزقنکم‘‘ …ترجمہ:…کہ اے ایمان والو! صرف وہ پاک اور حلال رزق کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بطور مثال کے) ایک شخص کا حال ذکر کیا کہ وہ طویل سفر اختیار کرتا ہے پراگندہ بال اور غبار آلودہ حالت میں اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھاتا ہے اور کہتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب! اے میرے رب! حالانکہ کھانا اس کا حرام، لباس اس کا حرام اور پرورش اس کی حرام غذا سے ہوئی، پھر کیونکر اس کی دُعا قبول ہوسکتی ہے۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ)
فائدہ:… مثلاً ایک شخص حج اور دیگر عبادات کے لیے طویل سفر کرتا ہے اور مقامات مقدسہ جاتا ہے جہاں مانگی جانے والی ہر دُعا باب قبولیت تک پہنچتی ہے۔ پھر وہ دست سوال اُٹھاتا ہے اور سفر کی طوالت و مشقت کی وجہ سے بال پراگندہ اور پورا جسم گردوغبار سے آلودہ ہے۔ یعنی ایک تو وہ عبادت گزار پھر وہ مسافر جس کے بارے میں حدیث میں ہے کہ اس کی دُعا باب قبولیت کو ضرور چھوتی ہے۔ مزید یہ کہ اس جگہ دُعا مانگ رہا ہے جہاں مانگی جانے والی ہر دُعا کی لاج رکھی جاتی ہے۔ الغرض قبولیت کے سارے آثار موجود ہیں مگر اس شخص کی دُعا قبول نہیں ہوتی، آخر کیوں؟ اس لیے کہ جس ذات سے وہ دُعا مانگ رہا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ شخص حرام مال سے پرہیز نہیں کرتا کیونکہ دُعا کے دو بازو ہیں۔ (جن کے سہارے وہ باب قبولیت تک پہنچتی ہے) ایک تو حلال کھانا اور دوسرا سچ بولنا۔ (مظاہر حق)
خرید و فروخت میں سچ بولنا سنت ہے
۔(۶) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں کو اختیار حاصل رہتا ہے۔ جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں اور جب بیچنے والا اور خریدنے والا سچ بولتے ہیں اور (اس چیز اور قیمت میں جو عیب و نقص ہوتا ہے اس کو) ظاہر کردیتے ہیں (تاکہ کسی دھوکہ و فریب کا دخل نہ رہے) تو ان کی خرید و فروخت میں برکت عطا کی جاتی ہے اور جب وہ عیب چھپاتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ختم کردی جاتی ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب الخیار)
ذخیرہ اندوزی نہ کرنا سنت ہے
۔(۷) حضرت معمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص احتکار کرے (یعنی گراں فروشی کی نیت سے غلہ کی ذخیرہ اندوزی کرے) وہ گناہ گار ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع) … یعنی ہر ایسی چیز کو جو انسان یا حیوان کی غذائی ضرورت میں کام آتی ہو، گراں بازاری کے حالات میں خرید کر اس نیت سے اپنے پاس روک رکھے کہ جب اور زیادہ گرانی ہوگی تو اسے بیچوں گا۔ یہ احتکار کہلاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تاجر کو رزق دیا جاتا ہے اور احتکار کرنے والا ملعون ہے۔ (مشکوٰۃ، کتاب البیوع) … یعنی جو شخص باہر سے غلہ وغیرہ لاتا ہے کہ اسے موجودہ نرخ پر فروخت کرے تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے جس میں برکت عطا کی جاتی ہے۔ برخلاف اس کے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی پریشانیوں اور غذائی قلت سے فائدہ اُٹھا کر غلہ وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی کرے تو یہ شخص خیر و بھلائی سے محروم ہے اور اسے برکت بھی حاصل نہیں ہوتی۔
۔(۸) سلم ایک طرح کی بیع کا نام ہے جس میں خریدی جانے والی چیز بعد میں لی جاتی ہے اور قیمت پہلے ادا کردی جاتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ پھلوں میں ایک سال، دو سال، تین سال کی بیع سلم کیا کرتے تھے (یعنی پیشگی قیمت دے کر کہہ دیا کرتے تھے کہ ایک سال یا دو سال یا تین سال کے بعد پھل پہنچا دینا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی چیز کی بیع سلم کرے اسے چاہیے کہ معین وزن اور معین مدت کے لیے سلم کرے۔ (بخاری) … حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی چیز کے لیے بیع سلم کا معاملہ کرے تو اس چیز کو قبضہ میں کرنے سے پہلے کسی دوسرے کی طرف منتقل نہ کرے۔ (ابوداؤد، کتاب البیوع)
چیز جب تک اپنے قبضہ میں نہ آجائے اسے کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت نہ کرے اور نہ ہبہ کرے۔ اسی طرح اس چیز کو کسی دوسری چیز سے نہ بدلے یعنی جس چیز کی بیع سلم ہوئی ہے، معاملہ کے مطابق اسی کو لے اور جب تک اپنے قبضہ میں نہ آجائے، اس کے بدلے میں کوئی دوسری چیز لینا، فروخت کرنا یا تبدیل کرنا درست نہیں۔
۔(۹) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں کا مال (بطور قرض کے) لے اور اس کے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے وہ مال ادا کرادیتے ہیں (بایں طور پر کہ یا تو دُنیا میں قرض ادا کرنے کی استطاعت مل جاتی ہے یا آخرت میں حق دار کو خدا راضی کردیتا ہے) اور جو شخص لوگوں کا مال لے اور اس کو ضائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہو (یعنی واپسی کا ارادہ نہ ہو) اللہ تعالیٰ اس کے مال کو ضائع کردیتا ہے۔ (مظاہر حق)
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صاحب استطاعت کا (ادائیگی قرض میں) تاخیر کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی کو صاحب استطاعت کے حوالہ کیا جائے تو اس حوالہ کو قبول کرلینا چاہیے۔ (مسلم، کتاب البیوع)
بعض علماء کرام کا قول ہے کہ اس شخص کی گواہی قابل ردّ ہے جو صاحب استطاعت ہونے کے باوجود بار بار نادہندگی کا ارتکاب کرے اور ادائیگی میں تاخیر کرنا اس کی عادت بن جائے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ فسق ہے اور حدیث مبارکہ کے دوسرے جز کا مطلب ہے مثلاً کسی شخص کا کسی پر قرض ہو اور وہ قرض دار قرض کی ادائیگی پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے کسی دوسرے سے کہے کہ تم میرا قرض ادا کردینا اور وہ راضی ہو جائے تو قرض خواہ کو چاہیے کہ وہ قرض دار کی اس بات کو قبول کرلے تاکہ اس کا مال ضائع نہ ہو۔ یہ حکم استحباب کے طور پر ہے لیکن بعض علماء کا قول ہے کہ یہ حکم بطریق وجوب ہے۔
۔(۱۰) حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے محفوظ رکھے تو اسے چاہیے کہ وہ مفلس و تنگ دست کو اپنا قرض وصول کرنے میں مہلت دے یا اس کو معاف کرے۔ (یعنی اپنا پورا قرض یا جس قدر ممکن ہو معاف کردے)۔ (مسلم، کتاب البیوع)
ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص تنگ دست کو مہلت دے یا اس کو معاف کردے تو اللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے دن) اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دیں گے۔(مسلم، کتاب البیوع) … ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مفلس و تنگ دست کو مہلت دے تو ادائیگی کا دن آنے تک اس کو ہر دن کے بدلے اس کے قرض کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا رہے گا۔ (مظاہر حق)
۔(۱۱) نقد رقم اُدھار پر دینا قرضہ حسنہ کہلاتا ہے اور اس پر ثواب ملتا ہے اور اگر مقروض مجبوری کی بنا پر وقت پر ادا نہ کرسکے تو اسے مزید مہلت دینا قرض کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور اگر قرض پر منافع وصول کرے تو یہ سود ہے اور حرام ہے۔ مسلمانوں کو ہر معاملہ میں صرف دُنیا کا نفع ہی مقصود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ آخرت کے نفع کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے۔ کسی ضرورت مند کو قرض حسنہ دینا، تنگ دست کو مہلت دینا اور حسب توفیق معاف کردینا آخرت کا نفع ہے۔ اگر میعادِ قرض پوری ہو جائے اور وہ شخص جس پر قرض ہے ادا کرنے پر قادر نہ ہو اس وقت اگر کوئی شخص مہلت دے دے تو اس کو ہر روز اس کی دُگنی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، فرمایا: ’’وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ وأن تصدقوا خیرلکم ان کنتم تعلمون‘‘ … ترجمہ:…یعنی اگر تمہارا مقروض تنگ دست ہو اور تمہارا قرض ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو حکم شرعی یہ ہے کہ اس کو فراخی اور آسودگی کے وقت تک مہلت دی جائے اور اگر تم اس کو اپنا قرض معاف ہی کردو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم کو یقین ہے۔ (سورۃ البقرہ:۲۸۰) … اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دُنیا میں بھی تمہیں اس عمل کی بہتری کا مشاہد ہو جائے گا کہ تمہارے مال میں برکت ہوگی۔ برکت کی حقیقت یہ ہے کہ کم مال میں بہت سے کام نکل جائیں گے۔ یہ ضروری نہیں کہ مال کی مقدار یا تعداد زیادہ ہو جائے۔ یہ مشاہدہ ہے کہ صدقہ خیرات کرنے والوں کے کم مال میں بے شمار برکت ہوتی ہے۔ ان کے کمال سے اتنے کام نکل جاتے ہیں کہ حرام مال والوں کے زیادہ اموال سے وہ کام نہیں نکلتے۔ (معارف القرآن)
سود کا وبال
۔(۱۲) قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یمحق اللّٰہ الربوا ویربی الصدقات واللّٰہ لا یحب کل کفار أثیم‘‘ … ترجمہ:…اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا کسی کفر کرنے والے کو کسی گناہ کرنے والے کو۔ (سورۃ بقرہ:۲۷۶)
یہ مضمون آخرت کے اعتبار سے تو بالکل صاف ہے، دُنیا کے اعتبار سے بھی اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو بالکل کھلا ہوا ہے جیساکہ ایک حدیث مبارکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سود اگرچہ کتنا ہی زیادہ ہو جائے مگر انجام کار نتیجہ اس کا قلت ہے۔ (سود کا حرام ہونا اس قدر شدید ہے کہ اس کی مخالفت کرنے پر قرآن مجید میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان جنگ سنایا گیا ہے۔ (سورۃ بقرہ :۲۷۹)… قرآن مجید کی سات آیات، چالیس سے زائد احادیث اور اجماع اُمت سے سود کا حرام ہونا ثابت ہے۔ (معارف القرآن)
ایک حدیث مبارکہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے پر بھی لعنت فرمائی اور سود دینے والے پر بھی۔ بعض روایات میں سودی معاملہ کی گواہی دینے والے اور اس کا وثیقہ لکھنے والے پر بھی لعنت فرمائی اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ بعض روایات میں شاہد و کاتب پر لعنت اس صورت میں ہے جب کہ ان کو اس کا علم ہو کہ یہ سود کا معاملہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں لین دین میں سود کا رواج ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان پر ضروریات کی گرانی مسلط کردیتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے آج رات دو شخصوں کو دیکھا جو میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس تک لے گئے۔ پھر ہم آگے چلے تو ایک خون کی نہر دیکھی جس کے اندر ایک آدمی کھڑا ہوا ہے۔ دوسرا آدمی اس کے کنارے پر کھڑا ہے۔ جب یہ نہر والا آدمی اس سے باہر آنا چاہتا ہے تو کنارے والا آدمی اس کے منہ پر پتھر مارتا ہے جس کی چوٹ سے گر کر پھر وہ وہیں چلا جاتا ہے جہاں کھڑا تھا۔ پھر وہ نکلنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر یہ کنارے والا آدمی یہی معاملہ کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ان دونوں ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے بتایا کہ خون کی نہر میں قید کیا ہوا آدمی سود کھانے والا ہے اور اپنے عمل کی سزا پا رہا ہے۔
(قارئین کرام ذرا غور کا مقام ہے کہ آج ہر آدمی مہنگائی کے سیلاب کو رو رہا ہے اگر آج بین الاقوامی سطح پر نہ سہی صرف اپنے ملک کی سطح پر ہم سودی لین دین قطع کردیں تو کوئی وجہ نہیں کہ حلال کی خیر و برکت آج بھی عود کر آجائے گی ورنہ دُنیا میں عسرت تو دیکھ ہی رہے ہیں اور آخرت کا معاملہ تو بہت خطرناک ہے۔ یاد رہے کہ سود کھانے والوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلان جنگ کی وعید آئی ہے جسے قطعاً گوارا نہیں کیا جاسکتا۔ واللہ اعلم۔
فریضۂ زکوٰۃ … معاش مسائل کا حل ہے
۔(۱۳) فریضہ زکوٰۃ ادا کرنے میں جیسے یہ عظیم الشان فائدہ مضمر ہے کہ قوم کے فقراء و مساکین کی امداد ہوتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے معاشی حالات کو درست کرنے کے لیے بھی یہ فریضہ فکر مند کرتا ہے اور تجارت کی ترغیب کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے کیونکہ ہر انسان جب یہ دیکھے گا کہ نقد سرمایہ کو بند رکھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ نفع تو کچھ ہوا نہیں اور سال کے ختم پر چالیسواں حصہ کم ہوگیا تو ضرور اس کو اس طرف توجہ کرنی پڑے گی کہ اس مال کو کسی تجارت پر لگائے اور دوسری طرف چونکہ سود پر روپیہ چلانا جرم ٹھہرا تو تجارت کی یہ صورت نہ رہے گی کہ لاکھوں انسانوں کے سرمایہ سے صرف ایک انسان تجارت کرے بلکہ ہر مال دار شخص خود تجارت میں آنے کی فکر کرے گا اور جب کہ بڑے سرمایہ دار بھی صرف اپنے ہی سرمایہ سے تجارت کریں گے تو چھوٹے سرمایہ والوں کو تجارت میں وہ مشکلات پیش نہیں آئیں گی جو بینکوں سے سودی روپیہ لے کر بڑی تجارت والے پیدا کردیتے ہیں۔ اس طرح پورے ملک میں تجارت اور اس کے منافع عام ہوں گے اور اس کے نتیجہ میں ملک کے غرباء اور فقراء کو فائدہ پہنچے گا۔ کسی یورپی ماہر نے صحیح کہا ہے کہ مسلمانوں کا نظام زکوٰۃ ایسی چیز ہے کہ اگر مسلمان اس کے پابند ہو جائیں تو اس قوم میں کوئی مفلس اور مصیبت زدہ نظر نہ آئے۔
گاہکوں کی خرید و فروخت ناجائز ہے
۔(۱۴) جیساکہ بعض اخبار بیچنے والے اور دودھ بیچنے والے جب اخبار اور دودھ گھر گھر پہنچانے کا اپنا کاروبار خوب مستحکم کرلیتے ہیں تو کچھ عرصہ بعد پورے علاقے کو کسی نئے تاجر کے پاس فروخت کردیتے ہیں۔ گویا یہ ایک قسم کی پگڑی ہوتی ہے یا بعض ٹیوشن پڑھانے والے حضرات جب اچھی خاصی مالیت کے ٹیوشن بنالیتے ہیں تو پھر اسے کسی دوسرے کے ہاں فروخت کردیتے ہیں۔ ان سب صورتوں سے حاصل ہونے والی رقم حرام ہے۔
جمعہ کی اذان کے وقت کاروبار
۔(۱۵) قرآن کریم میں اذان جمعہ کے بعد خرید و فروخت کی ممانعت فرمائی ہے اس لیے جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت اور دیگر کاروبار ناجائز ہے۔ ہاں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد خرید و فروخت جائز ہے۔
حرام کام کی اُجرت بھی حرام ہے
۔(۱۶) درزی کا غیر شرعی کپڑے سینا مثلاً مردوں کے لیے خاص ریشمی کپڑے سینا یا ٹائی اور پینٹ سینا وغیرہ یا عورتوں کے لیے مردانہ وضع قطع کے کپڑے سینا یا ایسی ڈیزائننگ کٹنگ کے کپڑے سینا جس سے عریانیت عیاں ہوتی ہو اور ٹائپسٹ کا غلط بیانی والی دستاویز ٹائپ کرنا اور حجام کا لوگوں کی داڑھی مونڈنا وغیرہ۔ یہ سب چیزیں حرام ہیں اور ان کی اُجرت بھی حرام ہے۔
کسی کی ناحق زمین غصب کرنا
۔(۱۷) اگر کوئی شخص اپنی زمین کی پیمائش اور نقشہ کی حد سے بڑھ کر اپنے پڑوسی کی زمین میں اپنا مکان تعمیر کرلیتا ہے یا اپنی زمین کو بڑھا لیتا ہے اور اپنے پڑوسی کی زمین کم کردیتا ہے ایسے شخص کے متعلق حدیث مبارکہ میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی کی ایک بالشت زمین پر بھی ناحق قبضہ کرلیا ، قیامت کے دن سات طبق تک اس زمین کا طوق اس کے گلے میں پہنایا جائے گا۔ (الصحیح للامام البخاری)
امانت
۔(۱۸) امانت کی رقم اگر گم ہو جائے یا چوری ہو جائے تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ جس شخص کے پاس امانت رکھی تھی اگر اس نے بعینہ محفوظ رکھی تھی اور اس کی حفاظت میں غفلت نہیں کی تھی تو اس کے ذمہ اس رقم کا ادا کرنا لازم نہیں لیکن اگر اس نے امانت کی رقم محفوظ نہ رکھی بلکہ اسے خرچ کرلیا یا اپنی رقم میں اس طرح ملالیا کہ دونوں کے درمیان امتیاز نہ رہا یا اس کی حفاظت میں غفلت کی تو ادا کرنا لازم ہے۔ کسی سے کوئی چیز عاریتاً لی جائے تو وہ لینے والے کے پاس امانت ہوتی ہے۔ اس کو واپس کرنا لازم ہے۔ اگر واپس نہ کی تو یہ خیانت ہے اور خیانت گناہ کبیرہ ہے۔
رشوت دینے اور لینے والے کا شرعی حکم
۔(۱۹) رشوت قطعی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے راشی اور مرتشی دونوں پر لعنت فرمائی اور اس پر دوزخ کی وعید سنائی ہے اس لیے رشوت لینا تو ہر حال میں حرام ہے اور گناہ کبیرہ ہے اور رشوت دینے کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جلب منفعت کے لیے دے دیا حرام ہے اور یہی مصداق ہے۔ ان احادیث کا جن میں رشوت دینے پر وعید آئی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دفع ظلم کے لیے رشوت دینے پر مجبور ہو۔ مظلوم اگر دفع ظلم کے لیے رشوت دے کر خونخوار درندوں سے اپنی جان چھڑائے تو اس کے بارے میں فقہاء فرماتے ہیں ممکن ہے اس پر مواخذہ نہ ہوگا۔ عام حالت میں جو رشوت کا لین دین ہے یہ مسئلہ اس سے متعلق نہیں ہے۔ رشوت کا پیسہ حرام ہے اور حدیث میں ارشاد ہے کہ آدمی حرام کما کر اس میں سے صدقہ کرے وہ قبول نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اس کی بارگاہ میں صرف وہی (صدقات وغیرہ) قبول ہوتے ہیں جو پاک ہوں۔ حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ مال حرام میں صدقہ کی نیت کرنا یا اس سے کسی کی خدمت کرنا اور اس پر ثواب کی اُمید رکھنا بڑا سخت گناہ ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص گندگی جمع کرکے کسی بڑے آدمی کو ہدیہ پیش کرے تو یہ ہدیہ نہیں بلکہ اس کو سنگین گستاخی تصور کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عالی میں رشوت، سود، ربا اور ناجائز حرام کی کمائی پیش کرنا بھی سخت ترین گستاخی ہے۔ اکابرین علماء نے لکھا ہے کہ حرام مال پر ثواب کی نیت کرنے سے ایمان سلب ہو جاتا ہے۔ رشوت لینے والا یا حرام کمانے والا اگر بعینہ اسی حرام رقم سے کوئی چیز خرید کر کسی کو تحفہ دیتا ہے تو اس تحفہ کا لینا جائز نہیں اور اگر وہ اپنی تنخواہ کی رقم سے یا کسی اور جائز آمدنی سے تحفہ دیتا ہے تو اس کا لینا درست ہے اور اگر یہ معلوم نہ ہو کہ یہ تحفہ جائز آمدنی کا ہے یا ناجائز؟ تو اگر اس کی غالب آمدنی صحیح ہے تو تحفہ لے لینا درست ہے ورنہ احتیاط لازم ہے اور اگر اس کی دل شکنی کا اندیشہ ہو تو اس سے لے لے مگر استعمال نہ کرے بلکہ بغیر نیت صدقہ کے کسی محتاج کو دے دے۔
سنت والی زندگی اپنانے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر مطلوبہ کیٹگری میں دیکھئے ۔ اور مختلف اسلامی مواد سے باخبر رہنے کے لئے ویب سائٹ کا آفیشل واٹس ایپ چینل بھی فالو کریں ۔ جس کا لنک یہ ہے :۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M
