بیت الخلاء کے متعلق ہدایات اور سنتیں
قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے، فرمایا: ’’ان اللّٰہ یحب التوابین و یحب المتطہرین‘‘ …’’بے شک اللہ کو پسند آتے ہیں توبہ کرنے والے اور گندگی سے بچنے والے۔‘‘ (تفسیر عثمانی)
دوسرے مقام پر اللہ رب العزت نے پاکیزگی کا خاص اہتمام کرنے والی ایک جماعت کی مدح فرمائی، فرمایا: ’’فیہ رجال یحبون أن یتطھروا واللّٰہ یحب المتطہرین‘‘ …’’اس (بستی) میں ایسے لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں پاک رہنے کو اور اللہ دوست رکھتا ہے پاک رہنے والوں کو۔‘‘ (تفسیر عثمانی)
حضرت ابو ایوب انصاری، جابر اور انس رضی اللہ عنہم اجمعین راوی ہیں کہ جب یہ مذکورہ آیت نازل ہوئی جس میں قباء میں رہنے والے انصار کی ایک جماعت کی پاکیزگی کی تعریف فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انصار کی جماعت! اللہ تعالیٰ نے پاکی کے معاملہ میں تمہاری تعریف کی ہے، تمہاری پاکی کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم نماز کے لیے وضوکرتے ہیں اور جنابت(ناپاکی) سے غسل کرتے ہیں اور ڈھیلے کے بعد پانی کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ذاک فعلیکموہ‘‘ …’’یہی (بات خدا کی محبت کا سبب) ہے لہٰذا تم اسے لازم پکڑو۔‘‘ (السنن للامام ابن ماجہ)
اس آیت کے پہلے جملے میں پاکیزگی حاصل کرنے والوں کی تعریف فرمائی اور دوسرے جملہ میں اللہ تعالیٰ نے پاکیزگی حاصل کرنے والوں سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک ہیں اور پاکی ہی کو پسند فرماتے ہیں اور یہ سنت رسول ہی میں ممکن ہے۔
بیت الخلاء سے متعلق ہدایات اور سنتیں
۔(۱) پانی لینے کے لیے پانی کے برتن میں ہاتھ نہ ڈالیں بلکہ دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک تین مرتبہ دھولیں، پھر پانی کے اندر ہاتھ ڈالیں۔ (السنن للامام الترمذی)
۔(۲) استنجاء کے لیے پانی اور مٹی کے ڈھیلے دونوں لے جائیں۔ تین یا پانچ پتھر ہوں تو مستحب ہے۔ (الصحیح للامام البخاری)
اگر پہلے سے بیت الخلاء میں انتظام کیا گیا ہو تو کافی ہے۔ اگر ایک کا کیا گیا ہو مثلاً پانی کا تو ڈھیلے کا انتظام خود کرکے جائیں۔ آج کل فلش بیت الخلاؤں میں ڈھیلوں کی وجہ سے پانی کی نکاسی میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے اس لیے بیت الخلاء میں ٹوائلٹ پیپر کا استعمال کرنا زیادہ بہتر ہے تاکہ۔ فلش خراب نہ ہو۔
۔(۳) سر ڈھانک کر اور جوتا پہن کر بیت الخلاء میں جانا۔ (بہشتی زیور)
۔(۴) بیت الخلاء میں داخل ہونے سے پہلے یہ دُعا پڑھنا: ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ‘‘ …’’یعنی میں ناپاک جنوں ، جننیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں۔‘‘(الصحیح للامام البخاری)
فائدہ: اس دُعا کی برکت سے خبیث شیاطین اور بندہ کے درمیان پردہ ہو جاتا ہے جس سے وہ شرم گاہ نہیں دیکھ پاتے۔ (السنن للامام ابن ماجہ)
۔(۵) بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت پہلے بایاں قدم اندر رکھنا۔ (بہشتی زیور)
۔(۶) شرم گاہ کھولتے وقت آسانی کے ساتھ جتنا نیچے ہونا ممکن ہو نیچے ہوکر کھولنا۔ (السنن للامام ابی داؤد)
۔(۷) انگوٹھی یا کسی چیز پر قرآنی آیات یااللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا ہو (اور وہ دکھائی دیتا ہو) تو اس کو باہر ہی چھوڑ جانا۔ (السنن للامام ابی داؤد)
فائدہ: تعویذ وغیرہ اگر موم جامہ کیا گیا ہو یا کپڑے میں سی لیا گیا ہو اسے پہن کر جانا جائز ہے۔ انگوٹھی وغیرہ اگر جیب میں ڈال کر جائیں تو یہ بھی جائز ہے۔
۔(۸) رفع حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا اور نہ پیٹھ بلکہ شمالاً جنوباً ہوکر بیٹھنا یا ترچھے ہوکر بیٹھنا۔ (الصحیح للامام البخاری)
۔(۹) رفع حاجت کے وقت بلاضرورتِ شدید کلام نہ کرنا اسی طرح زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی نہ کریں۔ اگر چھینک آئے تو دل میں الحمدللہ کہے۔ (السنن للامام ابن ماجہ)
۔(۱۰) داہنے ہاتھ سے عضو مخصوص کو نہ چھونا اور نہ ہی داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنا۔ (صحیح البخاری)
۔(۱۱) پیشاب پاخانوں کی چھینٹوں سے انتہائی احتیاط برتنا کیونکہ اکثر عذاب قبر پیشاب کی چھینٹوں سے پرہیز نہ کرنے سے ہوتا ہے۔ (السنن للامام ابی داؤد)
۔(۱۲) بیت الخلاء نہ ہونے کی صورت میں جیسے جنگل یا شہر سے باہر میدان میں قضائے حاجت کی ضرورت پیش آجائے تو اس وقت کسی چیز کی آڑ میں بیٹھنا یاقضائے حاجت کے لیے اتنا دور چلے جانا کہ لوگوں کی نگاہ نہ پڑے۔ (السنن للامام ابی داؤد)
۔(۱۳) مذکورہ بالا صورت میں پیشاب کرنے کے لیے نرم زمین تلاش کرنا تاکہ چھینٹے نہ پڑیں اور زمین چھینٹوں کو جذب کرتی چلی جائے۔ (السنن للامام الترمذی)
۔(۱۴) پیشاب بیٹھ کر کرنا نہ کہ کھڑے ہوکر۔ (السنن للامام الترمذی)
۔(۱۵) استنجا پہلے ڈھیلوں سے کرنا اس کے بعد پانی سے کرنا۔ (السنن للامام الترمذی)
۔(۱۶) بیت الخلاء سے نکلتے وقت پہلے دایاں پاؤں باہر نکالنا۔ (السنن للامام الترمذی)
۔(۱۷) پیشاب کے بعد اگر استنجاء سکھانا ہو تو دیوار وغیرہ کی آڑ میں سکھانا۔ (السنن للامام الترمذی)
۔(۱۸) استنجاء کے لیے ہڈی یا لید اور گوبر وغیرہ استعمال نہ کرنا۔ (السنن للامام الترمذی)
۔(۱۹) لوگوں کے راستہ میں پاخانہ پیشاب کرنا اور نہ ہی لوگوں کے کسی سایہ کے نیچے پاخانہ پیشاب کرنا (اور نہ کسی کے گھر کے پاس پیشاب پاخانہ کرنا)۔ (الصحیح للامام مسلم)
فائدہ:۔ ریل گاڑی جب اسٹیشن پرکھڑی ہو تو اس کا بیت الخلاء استعمال نہ کریں اس سے اسٹیشن پر موجودلوگوں کوتکلیف ہوگی۔
۔(۲۰) بیت الخلاء سے باہر آ نے کے بعد یہ دُعا پڑھنا: ’’غُفْرَانَکَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذٰی وَعَافَانِیْ‘‘ …’’اے اللہ میں تیری بخشش کا طلبگار ہوں، سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے دور کیا مجھ سے تکلیف دہ چیز کو اور مجھے عافیت بخشی۔‘‘ (السنن للامام الترمذی)
ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے باہر آتے تو یہ دُعا پڑھتے: ’’اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّیْ مَا یُوْذِیْنِیْ وَاَبْقٰی عَلٰی مَا یَنْفَعْنِیْ‘‘ … ’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے زیبا ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کیا اور وہ چیز باقی رکھی جو میرے لیے فائدہ مند ہے۔‘‘ (مظاہر حق)
انسان جب بھی بیت الخلاء میں جائے اور ان سنتوں پر عمل کرے تو دن رات میں آدمی کو کتنی بار قضائے حاجت پیش آتی ہے۔ اگر غور کریں تو اس ایک عمل سے سو سے زیادہ سنتوں پر عمل کرسکتے ہیں اور آخر میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتے ہوئے آنا چاہیے کہ نظام ہضم اور نظام اخراج اگر ان دونوں نعمتوں پر کوئی غور و فکر کرے تو اسے احساس ہو کہ یہ کتنی اہمیت کی حامل ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج ایسے کتنے بے حس و لاپروا انسان ملیں گے جن کے شعور میں اس کا تصور بھی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
غسل کے آداب اور سنتیں
صبح اُٹھنے کے بعد بعض مرتبہ غسل جنابت (جو فرض ہے) کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر خواب میں احتلام ہو جائے اور صبح اُٹھ کر کپڑوں پر منی کا اثر دیکھے تو غسل واجب ہوگا اور اگر خواب میں احتلام ہوا مگر صبح اُٹھ کر کپڑوں پر کچھ بھی اثر نہ دیکھا تو غسل واجب نہیں ہوگا اور اگر احتلام اسے یاد نہیں مگر جب صبح اُٹھا تو کپڑوں پر ایسے آثار دیکھے جیسے کہ احتلام ہوا ہو، جب بھی غسل واجب ہوگا۔ واضح رہے کہ یہی مسئلہ عورتوں کے لیے بھی ہے کیونکہ بعض عورتوں کو بھی احتلام ہوتا ہے۔
اس مسئلہ کی مزید تفصیلات کے لیے کسی فقیہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ کیونکہ یہاں مسائل پر بحث کرنا مقصود نہیں بلکہ غسل کی فرضیت اور اس کا مسنون طریقہ بیان کرنا مقصود ہے۔
سورۃ مائدہ میں فرمایا: ’’وان کنتم جنبا فاطھروا‘‘ … ’’اور گر تم کو جنابت ہو تو خوب اچھی طرح پاک ہو لو۔‘‘ (تفسیر عثمانی)
معلوم ہوا کہ جنبی ہونے کی بناء پر غسل فرض ہو جاتا ہے۔ الایہ کہ کوئی مجبوری ہو مثلاً بیمار ہے پانی کے استعمال سے جان کا خطرہ ہے یا بیماری کے بڑھنے کا خطرہ ہے یا پانی کے حصول میں دُشواری ہے۔ مثلاً جائے پانی پر دشمن کے حملہ کا خطرہ ہے یا پانی نہیں مل رہا ہے تو ایسی تمام صورتوں میں تیمم کرلے۔ 
تیمم کرنے کا مسنون طریقہ
پہلے پاکی کی نیت کرے، پھر پاک مٹی پر ہلکے سے دونوں ہاتھ مارے اور پورے منہ پر پھیرلے۔ اسی طرح دوبارہ پاک مٹی پر ہاتھ مار کے پورے ہاتھ کہنی سمیت پھیرلے تو اس طرح تیمم غسل کے قائم مقام ہو جاتا ہے۔ ان مسائل کے بارے میں مزید تفصیلات کے لیے کتب فقہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
جس گھر میں جنبی ہو، وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے
بعض لوگ غسل کرنے میں سستی کر جاتے ہیں، یہ انتہائی ناپسندیدہ بات ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ اگر فجر ہو جانے کے بعد آدمی غسل جنابت نہ کرے اور جنابت کی حالت میں پڑا رہے تو اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
غسل کرنے کا مسنون طریقہ
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کا ارادہ فرماتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوتے، پھر وضو کرتے جس طرح نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے، پھر اُنگلیاں پانی میں ڈالتے، پھر انہیں نکال کر اپنے بالوں کی جڑوں میں خلال فرماتے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے تین چلو پانی لے کر سر میں ڈالتے اور پھر اپنے تمام بدن پر پانی بہاتے۔ (الصحیح للامام البخاری)
مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل شروع کرتے، اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے، پھر استنجاء کرتے اور اس کے بعد وضو فرماتے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ غسل میں پورے جسم کو دھونا فرض ہے حتیٰ کہ ایک بال کے برابر بھی جگہ خشک نہ رہ جائے، ناک اور منہ کے اندرونی حصے چونکہ جسم کے ظاہری حصے کہلاتے ہیں اس لیے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا غسل جنابت میں فرض ہے۔ یوں غسل جنابت میں تین فرض ہوئے۔ (۱) کلی کرنا (۲) ناک میں پانی ڈالنا (۳) پورے جسم پر پانی ڈالنا۔ باقی تمام افعال جو روایات مذکورہ میں ہیں ’’سنن‘‘ کہلاتے ہیں۔ 
غسل کے آداب اور سنتیں
۔(۱) جسم کے جس حصے پر ناپاکی لگی ہوئی ہو، اس کو تین مرتبہ دھونا۔ (السنن للامام الترمذی)
۔(۲) پیشاب اور پاخانہ دونوں سے استنجے کرنا (خواہ ضرورت ہو یا نہ ہو)۔ (السنن للامام الترمذی)
۔(۳) شرمگاہ اور نجاست وغیرہ دھونے کے بعد بائیں ہاتھ کو مٹی سے رگڑنا (مٹی پاس نہ ہونے کی صورت میں صابن وغیرہ سے خوب صاف کرنا)۔ (الصحیح للامام البخاری)
۔(۴) غسل سے پہلے پورا وضو کرنا اگر نہانے کا پانی قدموں میں جمع ہورہا ہے تو پھر وضو میں پیروں کو نہ دھوئے بلکہ آخر میں یہاں سے ہٹ کر پاؤں دھوئے (پانی کی نکاسی کی صورت میں پہلے ہی دھولے)۔ (الصحیح للامام البخاری)
۔(۵) پہلے سر پر پانی ڈالنا پھر دائیں اور پھر بائیں کندھے (پر اتنا پانی ڈالنا کہ قدموں تک پہنچ جائے) پھر بدن کو ہاتھوں سے ملنا، اس طرح تین بار کرنا۔ (السنن للامام الترمذی)
۔(۶) غسل کے بعد کپڑے کو جسم سے پونچھنا بھی ثابت ہے اور نہ پونچھنا بھی۔ لہٰذا جو بھی صورت اختیار کریں سنت ہونے کی نیت سے درست ہے۔ (السنن للامام الترمذی)
فائدہ: چار صورتوں میں غسل کرنا سنت ہے۔ (۱) نماز جمعہ کے لیے غسل کرنا (۲) عیدین کے لیے غسل کرنا (۳) حج یا عمرے کے احرام کے لیے غسل کرنا (۴) حج کرنے والے کو عرفہ کے دن بعد زوال آفتاب غسل کرنا۔ (مظاہر حق)
فی الجملہ غسل کے تین فرض، چھ سنتیں اور چار صورتوں میں غسل کرنا سنت ہوا۔ ان صورتوں کے علاوہ بھی غسل کریں تو اس نیت سے کہ صفائی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہے، ان شاء اللہ سنت کا ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
سنت والی زندگی اپنانے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر مطلوبہ کیٹگری میں دیکھئے ۔ اور مختلف اسلامی مواد سے باخبر رہنے کے لئے ویب سائٹ کا آفیشل واٹس ایپ چینل بھی فالو کریں ۔ جس کا لنک یہ ہے :۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M
