بڑے بول بولنے والے ….پھر اپنا بول نبھا نہیں سکتے (152)۔
زندگی کے نشیب و فراز میں بعض واقعات ایسے بھی آتے ہیں جو انسان کو عبرت کے آئینے میں اپنا عکس دکھا دیتے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ اُس شخص کے ساتھ پیش آیا جس کے والد کا اچانک انتقال ہوگیا۔ اپنے والد کی زندگی میں وہ ہمیشہ نافرمان رہا، ان کی خدمت کرنے کی بجائے انہیں پریشان کرتا رہا۔
والد کی وفات اُس کے لیے ایک ایسا صدمہ بن کر آئی جس نے اُس کے دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔غم و اندوہ کے عالم میں اُس نے اپنے والد کی تدفین کے لیے ایک قریبی مسجد کے متصل پلاٹ کا انتخاب کیا۔ مسجد کے متولی حضرات نے اُس کے جذبات کو دیکھتے ہوئے وہاں تدفین کی اجازت دے دی۔
والد کی تدفین کے بعد، اُس نے مسجد پر گویا اپنا حق جمانا شروع کر دیا۔ اُس نے مطالبہ کیا کہ مسجد کی چابی اُس کے حوالے کی جائے تاکہ وہ جب چاہے والد کی قبر پر حاضر ہو سکے۔ انتظامیہ نے اس کی غیر مناسب درخواست کو رد کر دیا کیونکہ یہ مسجد کے نظام میں خلل ڈالنے کا باعث بن سکتی تھی۔
مگر یہ شخص روزانہ ہر نماز کے وقت مسجد پہنچ جاتا اور اپنے والد کی قبر کے پاس بیٹھا رہتا۔ جب کچھ لوگوں نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس طرح توقبر پرستی کا رجحان پیدا ہو نے کا اندیشہ ہے، تو اس نے ان کی بات کوخاطر میں نہ لایا اور جذبات میں آکر قبر پر جانا زیادہ کردیا۔ رفتہ رفتہ اُس نے وہاں پودے لگانے، درخت لگانے اور گھاس اگانے جیسےکام شروع ہرکدئیے۔ جس پر مجبوراً مسجد کمیٹی نے قبر کے احاطے میں ایک معمولی سا دروازہ لگا دیا تاکہ وہ وہاں بیٹھ سکے لیکن اندر داخل نہ ہو سکے۔اُسکے تمام بھائی مسجد کے اس فیصلے کا احترام کرتے اور جب بھی جانا ہوتا تو وہاں پر قبر کے قریب دروازے کے باہر بیٹھ کر ایصال ثواب کرلیتے۔لیکن اس کو یہ اقدام کسی صورت گوارا نہ ہوا۔ ایک دن اس نے چند شریر لوگوں کو جمع کیا اور بروز جمعہ نماز عصر کے وقت میں قبر کے احاطے کا دروازہ اکھاڑ کر پھینک دیا۔ مسجد کمیٹی نے فتنہ کو دبانے کے لیے خاموشی اختیار کرلی۔ اور دروازہ کو اسی اکھڑی ہوئی حالت میں الگ رکھ دیا۔
مسجد کے متولی اسکے چچا تھے جنہوں نے اسکوواٹس ایپ پر سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ تم وہاں پر اپنے تصرفات کرتے ہو اور نمازوں کے اوقات میں کئی نمازی دیکھتے ہیں کہ تم قبر کے پاس یہ سب کررہے ہو تو اسی لئے وہاں دروازہ لگایا تھا کہ تم باہر سے ہی ایصال ثواب کرلیا کرواور دروازہ بھی ایسا معمولی سا لگایا ہے جس میں سے سب کچھ صاف واضح ہوتا ہے۔ تو اِس نے انتہائی غیر معقول جواب دیا کہ چونکہ وہ وقف کی جگہ ہے اور اُس کے والد وہاں دفن ہیں، اس لیے والد کی تدفین سے وہ جگہ اب اُس کی ملکیت ہوگئی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کرجو اصل بات میں اس مضمون میں بتانا چاہ رہا تھاکہ اُس نے یہ الفاظ اپنے والد جیسے چچا کو بولے کہ دنیا کی کوئی طاقت اُسے قبر پر جانے سے روک نہیں سکتی۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو ڈیڑھ سال بعد آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔ یہی بڑے بول اُسکو لے ڈوبے ۔
آج اُس کے والد کی وفات کو تین سال گزر چکے ہیں، اور اب وہ شخص روز تو کیا، ہفتے میں ایک مرتبہ بھی قبرپر نہیں جا سکتا کیونکہ اسکا کاروبار چمک اٹھا ہے اور حالات بدل گئے ہیں۔ اب اُسکو قبر پر جانے کی فرصت ہی نہیں ہے۔
اُس کا غرور اور فرعونیت کا قصہ آج بھی قبرستان کے ٹوٹے ہوئے دروازے میں دفن ہے۔جو اُس نے بڑے بول بولے تھے کہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
تو سوچئے ! وہ اب کیوں روز نہیں جاتا ہوتا؟
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

