بڑوں کا کہنا ماننے کی بھی حد ہے (52)۔

بڑوں کا کہنا ماننے کی بھی حد ہے (52)۔

ہم سب انسان ایک نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سب کی حیثیت اور مقام کو واضح کردیا ہے۔ کوئی بھی اس دنیا میں مکمل اختیار نہیں رکھتابلکہ ملازم اپنے مالک کے ماتحت ہوتا ہے۔ کمپنی کا مالک اپنی مشیر کمیٹی کے ماتحت ہوتا ہے۔ اور اولاد ماں باپ کے ماتحت ہوتی ہے۔ یہی قدرت کا اصول ہے کہ شاگرد استاذ کا ماتحت ہوگااور ہر چھوٹا انسان اپنے سے بڑے کی عزت و توقیر کرے گا اور ماتحتی میں رہ کر زندگی گزارے گا۔
لیکن اس ماتحتی میں جو ہم اپنے سے اوپر شخص کی اطاعت کرتے ہیں خواہ وہ والدین کی ہو، اساتذہ کی ہو، اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کی ہو یا پھر کسی بھی انسان کی محتاجی میں ہم کو رہنا ہو تو اس اطاعت کی ایک حد مقرر کردی گئی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک نقل کیا گیا ہے۔
جسکا مفہوم یہ ہے کہ “کسی بھی مخلوق کی اطاعت ناجائز کام میں نہیں ہوگی” ۔
یعنی اگر مخلوق کی اطاعت کرنے سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی لازم آئے تو ایسے شخص کی اطاعت نہ کرنا لازم ہوتا ہے۔ مثلاً اگر والدہ کہے کہ نماز پڑھنا چھوڑ دو تو باوجود صد احترام اور اعلیٰ مقام ہونے کے بھی والدہ کی یہ بات نہیں مانی جائیگی۔ اسی طرح کوئی ٹیچر اپنے اسٹوڈنٹ کو کہہ دے کہ سنت رسول کو اپنے چہرے سے ہٹاکر پھر میری کلاس میں بیٹھو تو یہ اطاعت ضروری نہیں بلکہ اس صورتحال میں اللہ کی اطاعت کو مقدم رکھنا فرض ہے۔ اسی طرح کچھ بیبیاں پردہ نہیں کرتیں اور یہ عذر پیش کرتی ہیں کہ ہمارے خاوند ہم کو اجازت نہیں دیتے آخر اُنکی اطاعت بھی تو ہمارے ذمہ ہے۔ تو خوب سمجھ لو کہ یہ مجبوری اور عذر بروز قیامت قبول نہ ہوگا۔ کیونکہ حدیث شریف میں  وضاحتاً فرمان موجود ہے کہ اگر کوئی انسان تمہیں غیر شرعی کام کرنے کا حکم دے تو اُسکی اطاعتچھوڑدواور اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت کی اطاعت کرو۔
اس لئے کسی بھی رشتہ کی مجبوری کی وجہ سے ڈاڑھی کٹوانا، میوزک سننا، ناچ گانے کی محفل میں جانا یا پھر عورتوں کا بے پردہ ہونا، غیر محرموں سے اختلاط کرنا اور کزنوں سے دوستیاں رکھنا جائز نہ ہوگا۔ خواہ والدین حکم دیں ، ٹیچر کا حکم ہویا پھر کوئی بڑا شخص آپکو ان باتوں پر مجبور کرے تو یہ حدیث یاد رکھیں کہ ایسے معاملات میں اطاعت ضروری نہیں ہوگی۔
البتہ ایک احتیاط ضروری ہے کہ اس حدیث کو بنیاد بنا کر لڑائی جھگڑا کرنا یا بے ادبی اور بدتمیزی سے پیش آنا بھی جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی آپکو اصرار کررہا ہے تو ادب اور تمیز کے دائرے میں اُس سے معذرت کرلیں۔ گستاخی اور جہالت کی طرف نہ جائیںاور دین اسلام کے احکام کو فساد کا ذریعہ نہ بنائیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کے لئے دین پر چلنا آسان فرمادیں ۔ اور ہر قسم کے شرور اور آفات سے ہمیں محفوظ فرما لیں ۔ آمین ثم آمین۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ChatGPT Helping Prompts

ChatGPT Helping Prompts WordPress Plugin Prompt Lightweight; responsive; non-conflicting; fully secure (sanitize + escape + nonces); WP-coding-standards; PHP 8-ready + back-compatible; i18n/RTL; WCAG-accessible; Gutenberg & Classic support; roles/capabilities...

read more

جاہ کی دو قسمیں

جاہ کی دو قسمیں بسلسلہ ملفوظات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ ارشاد فرمایا کہ سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی قدس سرہ کا ملفوظ ہے کہ جاہ دو قسم کی ہوتی ہے۔(۱)جاہِ مذموم عند الخلق(۲) جاہِ محمود عندا لخالق۔ مشہور یہ ہے کہ اوّل کی...

read more