بچوں کو روزہ رکھوانے سے متعلق عام کوتاہی
ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ بعض لوگ خود تو روزہ رکھتے ہیں لیکن بچوں سے ان کے روزہ رکھنے کے قابل ہونے کے باوجود ان سے روزہ رکھوانے کی پرواہ نہیں کرتے ، اور بعض لوگ ان کے نابالغ ہونے کو دلیل سمجھتے ہیں ۔ لیکن خوب سمجھ لیا جائے کہ نابالغ ہونے والے بچوں پر واجب نہ ہونا تو لازم آتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بچوں کے اولیاء پر بھی ان سے روزہ رکھوانا واجب نہ ہو ۔ جس طرح نماز کے لئے بالغ نہ ہونے کے باوجود ان کو نماز کی تاکید کرنا بلکہ مارنا ضروری ہے اسی طرح روزہ کے لئے بھی حکم ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نماز میں سات برس عمر کی قید ضروری ہے اور روزہ میں قوت برداشت پر مدار ہے یعنی جب روزہ کی تکلیف برداشت کرنے کی قابلیت اور طاقت آجائے تو روزہ رکھوانا واجب ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر بالغ ہونے کے بعد ہی تمام احکام شروع ہوں تو اس پر ایک دم سے بار (بوجھ ) پڑ جائے گا۔ اس لئے شریعت نے پہلے ہی سے آہستہ آہستہ اعمال کا عادی بنانے کا قانون مقرر کیا تاکہ بالغ ہونے کے بعد دشواری نہ ہو ۔ اس قانون کی تنفیذ ( یعنی اس پر عمل کرانا) کو سر پرستوں پر لازم کیا گیا ہے۔ اگر سر پرستوں پر یہ واجب نہ ہو تو اس قانون کا کوئی فائدہ ہی نہ ہوگا۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمتین بن حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

