بدنگاہی سے بچنا اختیاری فعل ہے
ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ لوگوں سے رات کو جاگنا اور کم کھانا اور نوافل پڑھنا وغیرہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔ باقی گناہ سے اپنے کو بچانا یہ نہیں ہوسکتا حالانکہ یہ اس سے سہل ہے۔ بات یہ ہے کہ قصد ہی نہیں گناہ کے چھوڑنے کا۔ پھر بدنگاہی کے گناہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اگر آدمی نیچی نگاہ کرلے تو کیا کوئی زبردستی اونچی کر دے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نفس میں تقاضہ ہوتا ہے کہ نگاہ اٹھائیں مگر یہ تو کر سکتا ہے کہ اس تقاضہ پر عمل نہ کرے۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ اگر کوئی کہے کہ نگاہ کا بچانا قدرت میں نہیں تو بالکل غلط ہے۔ اگر کوئی حاکم یا پیر ہو جسے یہ بڑا سمجھتا ہو اور وہ سامنے ہو تو کیا ممکن ہے کہ اس کے دیکھتے ہوئے اس شخص کی نگاہ اوپر کو اٹھ سکے ۔ ایک صاحب یہاں آئے تھے۔ وہ بھی اس پر مصر تھے کہ نگاہ بچانا قدرت میں نہیں۔ میں کہتا تھا کہ ذرا سوچئے۔ اس کے بعد ان کا خط آیا تھا کہ واقعی میری غلطی تھی کہ میں قدرت سے خارج سمجھتا تھا۔ موٹی سی بات ہے۔ صاحب علم اس کے اختیاری ہونے کو اتنی بات سے سمجھ سکتا ہے کہ اگر قدرت نہ ہوتی تو قرآن شریف میں یہ حکم کیوں ہوتا *قل للمؤمنين يغضوا من أبصارهم* کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ *لا يكلف الله نفسا إلا وسعها* تو کیا یہ کلام کاذب ہے۔ پھر حضرت نے افسوس سے فرمایا کہ بس جی لوگ یوں چاہتے ہیں کہ مزہ میں بھی خلل نہ ہو اور کام بھی بن جائے ۔ مجاہدہ خلافِ نفس کرنے کو کہتے ہیں اور یہ نامحرم کی جانب نگاہ نہ کرنا اور دل میں اس کا خیال نہ لانا ہر وقت کا مجاہدہ ہے اس لئے اس سے دم نکلتا ہے۔ ہاں سوؤ مت کھاؤ مت اس کے کرنے کو تیار ہیں مگر گناہ نہیں چھوڑا جاتا۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ عبدالمتین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

