ایک نعمت …..اور پھر ایک امتحان (320)۔
زندگی کے اکثر لمحات ایسے ہوتے ہیں جو کہانی بن جاتے ہیں اور یادوں میں بدل جاتےہیں۔ کبھی کبھار یہ کہانیاں خوشیوں کے رنگ بکھیرتی ہیںاچھی یادیں بن جاتی ہیں۔جبکہ کبھی کبھی ایسی لمحات آجاتے ہیںجو ہمیں صبر کے امتحان میں ڈال دیتے ہیں ، جو ہماری روح کو بھی جھنجھوڑ دیتےہیں اور ہمیں اللہ کی رضا پر راضی ہونے کا سبق سکھاتے ہیں۔
آٹھ اکتوبر 2024کی وہ سہ پہر تھی، جب خوشخبری کی امید کے لیے ہم ہسپتال کے ایک بڑے ہال میں موجود تھے۔ میں اپنے موبائل میں مصروف تھا کہ اچانک کسی نے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا۔ یہ میری والدہ کا ہاتھ تھا اور اُن کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہہ نکلے۔ وہ لمحہ گویا زندگی کا پرلطف اور حسین ترین لمحہ تھا جب والدہ نے مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بیٹے کی نعمت سے نوازا ہے۔اُس وقت جو مسرت میرے دل میں محسوس ہوئی، وہ بیان سے باہر ہے۔ والدین کے چہرے پر خوشی کی جھلک دیکھنا اور اُن کی دعائیں لینا یقیناً زندگی کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہےاور اس سے ہماری ساری خوشیاں دوہری ہوجاتی ہیں۔
پھرکچھ دنوں بعدجب بیٹے کا نام طے کرنے کا سوچا۔ تومیرا دل چاہتا تھا کہ کسی ایسے جلیل القدر صحابی کے نام کو زندہ کیا جائے جو عام طور پر متروک ہو۔تو جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا نام میرے دل میں آیا۔ یہ نام ایک عظیم صحابی کا ہےجن سے اکثر روایات بھی ذخیرہ حدیث میں موجود ہیں، مگر ہمارے معاشرتی پس منظر میں اس نام کو اتنا عام نہیںکیا گیا کیونکہ اردو میں اسکو ظالم لفظ کے لاحقے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن علماء کی رہنمائی نے میرے دل کو تسلی دی کہ انہوں نے فرمایا اگر نیت اچھی ہو (صحابی کی نسبت حاصل کرنے اور اُنکے نام کو زندہ رکھنے کی)تو ایسا نام رکھنا باعثِ برکت ہوگا۔
اس لیے ہم نے سوچ لیا کہ بیٹے کا نام ’جابر‘ ہونا چاہئے۔لیکن پھر والدہ کی خواہش سامنے آئی کہ نام ایسا ہو جو قرآن میں بھی مذکور ہو، جیسے ’زید‘۔ لہٰذا ہم نے نام میں ایک اضافہ کر کے ’جابر زیدی‘ رکھا، تاکہ دونوں خواہشات پوری ہوجائیں۔ والد صاحب نے مشورہ دیا کہ بچے کا نام نافع رکھا جائے۔تو اُنکے مشورہ کو قبول کرتے ہوئے یہ تجویز ہواکہ نافع کو اسکی کنیت کے طور پر طے کرلیا جائے کیونکہ ابونافع ایک اچھی کنیتہوگی اور ویسے بھی کنیت میں یہ ضروری اصول نہیں ہوتا کہ وہ بیٹے کے نام پر ہی رکھی جائے اسکے علاوہ بھی کسی نام کو کنیت بنا جاسکتا ہے جیسے ابوحنیفہ اور ابو تراب وغیرہ۔
بہرصورت، ساتویںدن اپنے بچے کا مکمل نام ’ابو نافع جابر زیدی‘ رکھا۔یہ ننھا سا معصوم پھول ہماری زندگی کا محور بن گیا۔ صحتمندخوبصورت پھول اور اک پیارے سے کھلونے کی طرح تھا۔
مگر پھر 15 نومبر جمعۃ المبارک کی صبح کووہ بیمار ہوگیا۔ بظاہر بیماری معمولی تھی اور دوائی لینے سے کافی حد تک بہتری بھی آرہی تھی، لیکن حالات اچانک غیر معمولی طور پر بدل گئے ۔ وقت پلٹ گیا اور رات کے اڑھائی بجے جبکہ طبیعت بھی قدرے بہترتھی مگر وہ یکھتے دیکھتے ہی سکون میں چلا گیا۔ وہ ہمیں چھوڑ کر اپنے حقیقی مالک کے پاس لوٹ گیا۔
یہ صدمہ ایسا تھاجو بالکل غیریقینی اور یقیناًغیر متوقع تھا۔ دل پہ پہاڑ ٹوٹ پڑا۔اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سہارے اور امید پر دل کو سہلایا۔ صبح ہوتے ہی اُس کے معصوم جسم کو سپردِ خاک کیا۔
سب احباب سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر کی دولت عطا کرے اور اُس ننھے فرشتے کو ہمارے لیے ذریعہ نجات بنائے۔۔ جہاں اللہ نے نعمت دی، وہیں امتحان بھی لیا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو رضا بالقضاکاحوصلہ عطا فرمائیں۔آمین۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

