ایک مسلمان کب زوال کا شکار ہوتا ہے

ایک مسلمان کب زوال کا شکار ہوتا ہے (ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی)۔

قرآن و سنت اور قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ پر غور کرنے سے یہ بات بالکل آشکارہ ہو جاتی ہے کہ کسی قوم یا کسی ملت کو دنیوی سر بلندی محض اس بنا پر نصیب نہیں ہوا کرتی کہ وہ آسمان سے عروج و اقبال کا پیدائشی حق دنیا میں لے کر آئی ہے۔ عادت اللہ شروع سے کچھ اس طرح جاری ہے کہ اس جُہد وعمل کی دنیا میں ہر ایک کو اس کی کوشش کے مطابق حصہ دیا جاتا ہے ، مسلمان بھی قدرت کے اس اٹل قانون سے مستثنیٰ نہیں ہیں ، بلا شبہ ان کو’’خیر الامم‘‘ کا قابل فخر خطاب عطا کیا گیا ہے ، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مسلمان قوم اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین قوم ہے ، یہ بات بھی اپنی جگہ تسلیم ہے کہ روئے زمین پر کوئی دین مسلمانوں کے دین کا ہمسر نہیں ہےلیکن ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکالا جا سکتا کہ کوئی قوم صرف زبان سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی کر کے ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر اوجِ ثُریا کو چھو سکتی ہے، اور اگر وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے تب بھی ترقیوں اور کامیابیوں کے ذمے فرض ہوجاتا ہے کہ وہ خود آکر اس کے پاؤں چومیں۔قرآن کریم اور تاریخ اسلام کا ایک سرسری مطالعہ یہ بات ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مسلمانوں کو سر بلند کرنے کے لیے تمام وعدے دو شرطوں پر موقوف کیے گئے ہیں:۔
۔1۔صحیح معنی میں مسلمان بن کر اپنی زندگی کو ہر شعبے میں اسلام کے تابع بنا لینا۔
۔2۔ترقی کے ظاہری اسباب و وسائل جمع کرنے کی کوشش کرنا ۔
یہ دو چیزیں وہ ہیں جن میں ہماری ترقی اور کامیابی کا راز مضمر ہے اور جن کو قرآن کریم نے نہایت صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ ایک طرف ارشاد ہے:۔
وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
۔(اور تم سر بلند ہو ، اگر تم مؤمن ہو)۔
دوسری طرف فرمایا جاتا ہے:۔
اَعِدُّوالَہُم مَّا استَطَعتُم مِّن قُوَّۃٍ وَّ مِن رِّبَاطِ الخَیلِ تُرہِبُونَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُم
۔﴿سورۃ الانفال۶۰﴾۔
۔(اور (مسلمانو) جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں ان سے مقابلے کے لیے تیار کرو جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے (موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو)۔
تاریخ اسلام کے جس انقلاب پر آپ نظر ڈالیں گے ، قرآن کریم کے ان ارشادات کی صداقت واضح ہوتی چلی جائے گی۔جہاں مسلمانوں نے سچا مسلمان بن کر ظاہری وسائل اسباب جمع کرنے کی امکانی کوشش کی ہے ، تو خواہ وہ اس کوشش کے باوجود دشمن کے مقابلے میں کتنے ہی کم حیثیت کیوں نہ رہے ہوں ہمیشہ فتح کا سہرا انہی کے سر بندھا ہے۔ شکست کی ذمہ داری مسلمان کو صرف اس وقت اٹھانی پڑتی ہے جب وہ ان دونوں احکام میں کسی سے منہ موڑ بیٹھا ہو۔

۔( اقتباس از اداریہ ماہنامہ البلاغ 1967عیسوی)۔۔

یہ ملفوظات حضرت ڈاکٹر فیصل صاحب نے انتخاب فرمائے ہیں ۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

Most Viewed Posts

Latest Posts

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی چنانچہ سلف سے لے کر خلف تک اختلافی مسائل میں ایسے ہی جامع افراد کی تقلیدِ معین بطور دستور العمل کے شائع ذائع رہی ہے اور قرنِ صحابہ ہی سے اس کا وجود شروع ہوگیا تھا۔ مثلاً حدیث حذیفہ میں جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ارشادِ نبوی ہے:انی...

read more

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس پر غور کیجئے کہ اس ہرجائی پن اور نقیضین میں دائر رہنے کی عادت کا...

read more

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار غور کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں ان ساتوں سنابل کا خلاصہ چار ارکان:۔۔ 1ایمان 2اسلام 3احسان 4 اور اعلاء کلمۃ اللہ ہیںجو حقیقتاً انہارِ اربعہ ہیں۔ ’’نہران ظاہران و نہران باطنان‘‘ ایمان و احسان باطنی نہریں ہیں اور اسلام و اعلاء کلمۃ اللہ...

read more