ایک مجتہد کو دوسرے مجتہد کی تقلید جائز نہیں
صاحب ائمہ مجتہدین نے حق تعالیٰ کو حاضر و ناظر سمجھ کر محض للہیت سے دین کو مرتب کیا ان کو دین سے جاہ مقصود تھا نہ مال صرف رضائے الٰہی مقصود تھی پس ایسے شخص کو تحقیق سے جوبات معلوم ہوجائے اس کے چھوڑنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے اور وہ اپنی تحقیق کو چھوڑ کر دوسرے کی تحقیق کو کیوں اختیار کرنے لگا ۔
چنانچہ خود ان کو اپنے تجربہ یا مزید تحقیق سے کوئی دوسری رائے زیادہ صحیح معلوم ہوئی تو انہوں نے اپنی پہلی رائے سے فوراً رجوع کرلیا پھر بتائیے کہ ایسے شخص کو دوسرے کی تقلید کیسے جائز ہوسکتی ہے ایسا شخص اگر تقلید کرے گا تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اس نے وہ تحقیق تو چھوڑ دی جو خالصاً لوجہ اللہ اسے حاصل ہوئی تھی اور کسی مصلحت سے رائے کو بدل دیا تو ایسا شخص جو للہیت کو چھوڑ کر مصلحت کا اتباع کرے تو وہ مجتہد تو کیا ہوتا ایک ادنیٰ درجہ کا عالم بھی کہلانے کا مستحق نہیں ہے اس تقریر سے یہ مضمون خوب واضح ہوگیا ہوگا کہ مجتہد کو دوسرے کی تقلید جائز نہیں اگر وہ کسی مصلحت سے ایسا کرے گا تو مواخذہ ہوگا ( ج ۲۶)
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ ایک مجتہد کو دوسرے مجتہد کا تخطیہ یعنی اس کو خطا وار مجرم کہنا جائز نہیں ۔( وحدت امت)
فرمایا فقہا بھی اپنی تحقیقات پر ضابطہ کے دلائل بیان کرتے ہیں مگر مثال ان دلائل کی ایسی ہے جیسے آنکھوں والا عصا لیکر چلے تو اس کا چلنا عصا پر موقوف نہیں فقہاء کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں عطا فرمائی تھیں جس کو ذوق اجتہادی کہتے ہیں ان کو ضرورت ان عصائوں کی نہ تھی مگر ہم کو ضرورت ہے ہماری مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا اس کا مدار ہی عصا پر ہے اگر وہ عصا لیکر نہ چلے تو وہ خندق میں گرے وہ ہم ہیں۔ ( الافاضات ج ۱ ص ۸۷)
