ایک عبارت کا معمہ
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تحریک خلافت کے دور میں جب امارت شرعیہ (عوام کی طرف سے قاضی مقرر کرنے) کا مسئلہ چھڑا تو مولوی سبحان اللہ خان صاحب گورکھپوری نے اپنے بعض نقاط نظر کی تائید میں بعض سلف کی عبارت پیش کی جو ان کے نقطہ نظر کی تو مؤید تھی مگر مسلک جمہور کے خلاف تھی۔۔۔ یہ عبارت وہ لے کر خود دیوبند تشریف لائے اور مجمع علماء میں اسے پیش کیا۔۔۔ تمام اکابر دارالعلوم حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کمرے میں جمع تھے۔۔۔ حیرانی یہ تھی کہ نہ اس عبارت کو ردّ ہی کرسکتے تھے کہ وہ سلف میں سے ایک بڑی شخصیت کی عبارت تھی اور نہ اسے قبول ہی کرسکتے تھے کہ مسلک جمہور کے صراحتہً خلاف تھی۔۔۔ یہ عبارت اتنی واضح اور صاف تھی کہ اسے کسی تاویل و توجیہ سے بھی مسلک جمہور کے مطابق نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔۔۔
حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ استنجاء کے لیے تشریف لے گئے ہوئے تھے ، وضو کرکے واپس ہوئے تو اکابر نے عبارت اور مسلک کے تعارض کا تذکرہ کیا اور یہ کہ ان دونوں باتوں میں تطبیق بن نہیں پڑتی۔۔۔ حضرت ممدوح رحمۃ اللہ علیہ حسب عادت ’’حسبنا اللّٰہ‘‘ کہتے ہوئے بیٹھ گئے اور عبارت کو ذرا غور سے دیکھ کر فرمایا کہ اس عبارت میں جعل اور تصرف کیا گیا ہے اور دو سطروں کو ملا کر ایک کردیا گیا ہے۔۔۔ درمیان کی ایک سطر چھوڑ دی گئی ہے۔۔۔ اسی وقت کتب خانہ سے کتاب منگوائی گئی۔۔۔ دیکھا تو واقعی اصل عبارت میں سے پوری ایک سطر درمیان سے حذف ہوئی تھی۔۔۔ جوں ہی اس سطر کو عبارت میں شامل کیا گیا عبارت کا مطلب مسلک جمہور کے موافق ہوگیا اور سب کا تحیر رفع ہوگیا۔۔۔ (حیات انور، ص:۲۲۹، ۲۳۰، بحوالہ اکابر دیوبند کیا تھے؟)
