ایک سے زائد شادی اسلام میں جائز تو ہے مگر (208)۔

ایک سے زائد شادی اسلام میں جائز تو ہے مگر (208)۔

دینِ اسلام میں نکاح کا حکم ایک نعمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت اور معاشرتی عدل کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے جاری فرمایا۔ اس ضمن میں دوسری شادی کا تصور بھی اسی حکم کا ایک حصہ ہے جس پر عہدِ صحابہ میں بکثرت عمل ہوا کرتا تھا۔ ان مبارک ہستیوں نے ایک سے زائد شادیاں کیں اور ہر بیوی کے ساتھ عدل و انصاف کا عملی مظاہرہ پیش کیا۔ اس حکمِ شریعت کو اگر صحیح طور پر برتا جائے تو خواتین کے لیے بھی اس میں بہت سے فوائد ہیںگو ابتدائی دور میں کسی بھی عورت کے لیے اپنے شوہر کی دوسری شادی کو قبول کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور طبعی بے چینی بھی ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر شریعت کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کیا جائے تو اسی عقد ثانی کے عمل سے بہت سی معاشرتی برائیوں کا سدباب ہوجاتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشروں میں دوسری شادی کو بہت غلط سمجھا جاتا ہے ۔ لوگ دوسری شادی کو یوں چھپاتے ہیں جیسے گناہ کا کام کر رہے ہوں۔ ایک عرصہ تک میرا خیال تھا کہ یہ تصور ہندو معاشرت سے متاثر ہوکر بدنام ہوا ۔
مگر رفتہ رفتہ یہ معلوم ہوتا جارہا ہے کہ دوسری شادی کے اصل وقار کو تباہ کرنے میں خود بعض مسلمان پیش پیش ہیں۔ ایسے بہت سے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں پہلی بیوی کے ساتھ نہایت ظالمانہ اور افسوس ناک سلوک کیا گیا، جس نے لوگوں کے ذہن میں یہ تاثر قائم کردیا کہ دوسری شادی سراسر ظلم ہے۔حال ہی میں ایک صاحب کا واقعہ سامنے آیا جو اپنی بیوی پر اتنی سخت پابندیاں لگاتے تھے کہ اسے کہیں آنا جانا تک نصیب نہ ہوتا۔ دلیل یہ تھی کہ گھر سے باہر خواتین کا پردہ ختم ہوجاتا ہے، بچے بگڑ جاتے ہیں اور شریعت کے خلاف عمل ہوتے ہیں۔
مگر جب انہی صاحبنے دوسری شادی کی، اور وہ بھی ایک نوجوان لڑکی سے، تویک دم ان کے رویے بدل گئے۔ اب وہ اسی نئی بیوی کو گھمانے پھرانے لے جاتے، اس کے ساتھ ریستوران میں کھانا کھاتے اور اگر وہ اکیلی کہیں جانا چاہتی تو اسے بلا جھجھک اجازت بھی دے دیتے تھے کہ گھر میں قید ہو کر کیا کرے گی۔ جب پہلی بیوی نے احتجاج کیا تو انہوں نے مختلف بہانے بنائے حتیٰ کہ جب ان پر لوگوں کی طرف سے سخت تنقید ہوئی تو بڑی مشکل سے انہوں نے پہلی بیوی سے کہا کہ ٹھیک ہے تم بھی کبھی کبھار باہر جاسکتی ہو، لیکن اب تو یہ حکم قابل قبول نہیں تھا۔اس عورت نے اپنا مسئلہ مختلف مفتیانِ کرام کے سامنے پیش کیا، لیکن شوہر کے رویے میں کوئی بھی تبدیلی نہ آئی کیونکہ اب تو وہ مقام استغناء پرتھا۔
اس طرح کی مثالیںدوسری شادی کوغیرشرعیعمل بنا دیتی ہیں (نعوذباللہ)۔بعض علمائے کرام یہ مشورہ دیتے ہیں کہ بہتر ہے کہ دوسری شادی نہ کی جائے۔
عرب معاشروں میں ایک سے زائد شادیاں ہوتی تھی لیکن ان میں سب سے نمایاں خصوصیت سخاوت تھی۔ اگر کسی وجہ سے پہلی بیوی کو طلاق بھی دی جاتی تو اسے اتنا مال اور سہولیات دے کر رخصت کرتے تھے کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں کبھی محتاجی کا شکار نہ ہوتی۔ لیکن ہمارے معاشروں میں عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں تو نہ صرف پہلی بیوی کی حق تلفی کی جاتی ہے بلکہ بعض اوقات تو حالات بہت سنگین ہوجاتے ہیں۔انسان کی خودغرضی اور جھوٹی انا اسے غلط رخ پر لے جاتی ہے۔ نتیجتاً یہی حلال کام لوگوں کی نظر میں ذلت کا باعث بن جاتا ہے۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دوسری شادی کے حوالے سے نہ صرف شرعی احکامات کو سمجھیں بلکہ اپنے معاشرے کی صورتِ حال کو بھی دیکھیں۔ اگر کسی میں اتنی ہمت، تقویٰ اور مال کی وسعت ہے کہ وہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ انصاف کرسکے، تو یہ حکم اُس کے لیے باعثِ رحمت ہے۔ ورنہ احتیاط بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more