ایک سیکنڈ میں آج کل کال مل جاتی ہے (198)۔

ایک سیکنڈ میں آج کل کال مل جاتی ہے (198)۔

کیا ہی یادگار دَور تھا جب ہر چیز کو اتنی سہولت سے حاصل نہیں کیا جا تاتھا جتنی آج کے دور میں ممکن ہے۔ ہر چیز کی ایک قیمت تھی اور بعض اوقات وہ قیمت صرف پیسے ہی نہیں بلکہ وقت، صبر، اور مشقت میں بھی ادا کرنی پڑتی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ جب رابطے کے ذرائع اتنے محدود اور پیچیدہ تھے کہ بین الاقوامی بات چیت (انٹرنیشنل کال)کسی معرکہ سے کم نہیں لگتی تھی۔یہ 2000ء کا زمانہ تھا، جب موبائل فون ابھی تک وجود میں نہیں آئے تھے۔اگر ہم سعودی عرب میں رہنے والے اپنے رشتہ دار سے بات کرنا چاہتے تو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
موبائل کال کا کوئی تصور نہیں تھا، بلکہ اس مقصد کے لئے قریب ترین ٹیلیفون ایکسچینج جانا پڑتا تھا۔ وہاں جا کر آپ کو کال بک کروانی پڑتی، جس کے لئے آپ کو کال کی مدت بتانی ضروری ہوتی تھی۔ تین منٹ، نو منٹ، یا پندرہ منٹ کا وقفہ آپ کی جیب اور ضرورت کے مطابق منتخب کیا جاتا، اور پورے پیسے ایڈوانس میں ادا کیے جاتے۔
جب کال مل جاتی تو نئی مشکل پیش آتی، کیونکہ وہاں سعودی عرب میں آپ کے رشتہ دار کو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ فلاں وقت فلاں صاحب کی کال آنے والی ہے۔ پیشگی اطلاع تو ممکن ہی نہیں تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جب کال ملتی تو بچہ فون اٹھا لیتا اور پورے تین منٹ اسے یہ سمجھانے میں صرف ہو جاتے کہ ہم کون ہیں اور کس سے بات کرنی ہے۔
اسی طرح اگر فون کی دوسری طرف متعلقہ فردفون سے دور ہوتا تو وہ ایک دو منٹ اس کے ٹیلیفون تک آنےمیں لگا دیتا تھا۔ اور یوں تین منٹ کا وقت پلک جھپکتے میں ختم ہو جاتا تھا۔
یہ سب کچھ آج واٹس ایپ جتنا آسان نہ ہوتا تھا۔ خاص طور پر اس وقت بہت ہی کربناک مرحلہ ہوتا تھاجب کبھی کبھی لائن تو مل جاتی تھی، مگر کال کے دوران شور شرابا ہوتا تھا، اور آپ کے تین منٹ بے سود ہی ضائع ہو جاتے تھے۔یہ تشویش بھی ہوتی تھی کہ شور کس طرف سے ہے یعنی ہماری طرف سے یا اُنکی طرف سے۔اور اس وقت دوبارہ کال ملانا اور تین منٹ خریدنا ایک الگ مرحلہ ہوتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ بس فوراً سے پہلے دوبارہ کال کر لی جائے، بلکہ دوبارہ ایکسچینج کی لائن میں لگنا پڑتا اور انتظار کرنا ہوتا تھا۔ اس انتظار میں ایک آدھ گھنٹہ گزر جاتا اور اکثر وہ مطلوبہ شخص جس سے بات کرنی ہوتیتھی وہ وہاں سے جا چکا ہوتاتھا کیونکہ اُس کوئی گمان نہیں ہوتا تھا کہ اب دوبارہ کال آئے گی یا نہیں۔
پھر ایک ایسا وقت تھا کہ جب لوگوں کے پاس انٹرنیشنل کالز کے لئے مخصوص کالنگ کارڈز ہوتے تھے۔ یہ کارڈز مختلف کمپنیوں سے ملتے تھے اور ان کی قیمت بھی کم نہ ہوتی۔ سو روپے کا کارڈ خرید کر اس کا کوڈ ٹیلیفون پر ڈائل کرنا پڑتا اور اس کے بعد مطلوبہ نمبر ملایا جاتا۔ بعض کارڈز کی مدد سے بمشکل دو تین منٹ کی بات ہوتی تھی۔ اور یہ کال ملانے سے پہلے پورے گھر والے فون کے اردگرد جمع ہوجاتے تھے۔ تاکہ جونہی کال مل جائے تو وہاں کے رشتہ دار کی آواز سب سن لیں۔ اور اس کالنگ کارڈکے بھی شور اور ناگہانی قطع و بند کا خطرہ ہمیشہ رہتا تھا۔
لیکن آج کے دور میں یہ تمام مشکلات محض داستانیں بن چکی ہیں۔ اب ہر کوئی اپنی جیب میں انٹرنیٹ کی سہولت کے ساتھ پوری دنیا سے لمحوں میں جڑ سکتا ہے۔ ویڈیو کال ہو، وائس میسج ہو، یا پھر ٹیکسٹ میسج، سب کچھ آسان اور فوری دستیاب ہے۔
آج کی نسل کے لئے شاید یہ سب یادیں بے معنی ہوں لیکن حقیقت ہے کہ دنوں میں کسی سے رابطہ کرنا ایک خواب ہوتا تھا۔جب کبھی کال ملانے کی باری آتی تو عجیب وغریب خوشی کا سماں ہوتا تھا۔جن جن لوگوں نے وہ وقت دیکھا اور یہ مشقتیں دیکھی ہیںتوصرف وہی لوگ محسوس کرسکتےہیں کہ پل بھر میں دوسرے کے ساتھ کال مل جانا کتنی بڑی نعمت ہے۔ اور ایسے آج کل بہت کم لوگ رہ گئے ہیں۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more