ایک دوسرے کا تعاون کرنے کے متعلق سنتیں
ایک دوسرے کی مدد کرنا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی سے ہمیں دوسروں کی مدد کرنے کا پتہ چلتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں غریبوں کے لیے امیروں کو زکوٰۃ دینے کے فرمان کو جاری فرمایا اور بے سہاروں کو سہارا دینے اور بیماروں کی بیمار پرسی پر تعلیمات ارشاد فرمائیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کیا اور ایک دوسرے کی تکلیفوں کو دُور کرنے کی اور ایک دوسرے پر احسانات کرنے کی تعلیم دی۔خود قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : ’’نیک کام کرو، اُمید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے۔‘‘ (سورۃ الحج، پارہ:۱۷)
قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ’’تعاونوا علی البر والتقویٰ‘‘ یعنی نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ احادیث شریف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شر الناس الذی یسأل باللّٰہ ثم لایعطی‘‘ (جامع صغیر) … ’’سب سے بُرا آدمی وہ ہے جس سے اللہ کا واسطہ دے کر مانگا جائے تو پھر بھی وہ نہ دے۔‘‘۔
۔’’من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ‘‘ (مسلم ، ابن ماجہ)
’’جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ ضرور نفع پہنچائے۔‘‘
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اس کو دُشمنوں کے سپرد کرے اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی میں ہوتا ہے اور جو شخص مسلمانوں سے تکلیف اور مشقت دور کرے،۔ اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کی مشکلوں سے مشکل اور تکلیف دور فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔
’’جب کسی مجلس میں کسی شخص کی عزت پر حملہ کیا جائے تو تم اس کے مددگار بن جاؤ اور لوگوں کو منع کرو ، ورنہ ان کے پاس سے اُٹھ جاؤ۔‘‘
ایک دوسرے کی مدد کرنے کی اہمیت
کسی مسلمان کا کوئی ضروری کام کردینا، یا اس کے کام میں مدد کرنا یا اس کی کوئی پریشانی دور کردینا بھی ایسا عمل ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت اجر و ثواب کے وعدے فرمائے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اپنے کسی بھائی کے کام میں لگا ہو، اللہ تعالیٰ اس کے کام میں لگ جاتے ہیں اور جو شخص کسی مسلمان کی کوئی بے چینی دور کرے اللہ تعالیٰ اس کے صلے میں اس سے قیامت کی بے چینیوں میں سے کوئی بے چینی دور فرما دیتے ہیں۔ (بحوالہ ابوداؤد شریف)
کسی شخص کو راستہ بتا دینا، کسی کا سامان اُٹھانے میں اس کی مدد کردینا، غرض خدمت خلق کے تمام کام اس حدیث کی فضیلت میں داخل ہیں جو لوگ دوسروں کے کام آتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بڑی فضیلت والے لوگ ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ’’خَیْرُ النَّاسِ منْ ینفَعُ النّاس‘‘ لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔
لہٰذا خدمت خلق کا ہر کام چھوٹا ہو یا بڑا اس کے مواقع تلاش کرنے چاہئیں، اس سے انسان کی نیکیوں میں بہت اضافہ ہوتا ہے ، اسی طرح اگر کسی شخص پر ظلم ہورہا ہو تو اس کو ظلم سے بچانے کی امکانی کوشش ہر مسلمان کا فرض ہے۔
ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے نہ اس سے جھوٹ بولتا یا وعدہ خلافی کرتا ہے اور نہ اس پر ظلم کرتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ ’’جس جگہ کسی مسلمان کی بے حرمتی کی جارہی ہو اور اس کی آبرو پر دست درازی ہورہی ہو وہاں جو مسلمان اس شخص کو بے یارومددگار چھوڑ جائے اللہ تعالیٰ اس کو ایسے مواقع پر بے یارومددگار چھوڑ دیں گے جہاں وہ مدد کا خواہش مند ہوگا اور جس جگہ کسی مسلمان کی بے آبروئی یا بے حرمتی ہورہی ہو وہاں اگر کوئی مسلمان اس کی مدد کرے تو اللہ تعالیٰ ایسی جگہ اس کی مدد کریں گے جہاں وہ خواہش مند ہوگا۔ (بحوالہ ابوداؤد شریف)
مسلمان کی مدد میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اگر کسی جگہ اس پر غلط الزامات لگائے جارہے ہوں یا غلط باتیں اس کی طرف منسوب کی جارہی ہوں تو ان الزامات کا جائز دفاع کیا جائے۔ چنانچہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنے کسی بھائی کی آبرو کا دفاع کرے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے سے جہنم کی آگ کو مٹا دیں گے۔‘‘ (بحوالہ ترمذی شریف)
اور اسی طرح یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی بہت فضیلت کا عمل ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے: لوگ آپ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ ان کے حالات درست کرنا بڑی بھلائی ہے اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی اُنگلی اور بیچ کی اُنگلی میں تھوڑا سا فاصلہ رکھ کر اشارہ فرمایا۔‘‘ (بحوالہ بخاری شریف) اس حدیث میں کسی یتیم کی سرپرستی کی اتنی عظیم فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس کی عظمت کا تصور بھی مشکل ہے۔ یعنی ایسا شخص جنت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت قریب ہوگا۔ اس انتہائی قرب کو ظاہر کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس قسم کا قرب ہوگا جیساکہ شہادت کی اُنگلی اور بیچ کی اُنگلی ایک دوسرے سے قریب ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ یتیم کی سرپرستی کرنے والا خواہ اس کا کوئی رشتہ دار ہو، مثلاً ماں، دادا، بھائی وغیرہ یا رشتہ دار نہ ہو۔ دونوں صورتوں میں اس اجر و ثواب کا حق دار ہوگا۔ (ریاض الصالحین)
اور بیوہ کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص کسی بیوہ یا کسی مسکین کے لیے کوشش کرے وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے اور (راوی کہتے ہیں کہ) میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ اس شخص کی طرح ہے جو مسلسل بغیر کسی وقفے کے نماز میں کھڑا ہو اور اس روزہ دار کی طرح ہے جو کبھی روزہ نہ چھوڑتا ہو۔‘‘ (بحوالہ بخاری شریف)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’مسلمانوں کا سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے حسن سلوک کیا جاتا ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے بدسلوکی کی جاتی ہو۔‘‘ (بحوالہ ابن ماجہ شریف)
قرآن و حدیث یتیموں اور بیواؤں کی مدد کے فضائل سے بھرے ہوئے ہیں لیکن ان چند ارشادات ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو کتنا محبوب ہے۔ لہٰذا جب کبھی کسی یتیم یا بیوہ کے ساتھ کسی بھلائی کا موقع ملے۔ اس کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے اور جس قسم کی بھلائی یا مدد کی توفیق ہو جائے، اسے غنیمت سمجھنا چاہیے، ان شاء اللہ ان فضائل میں سے حصہ ضرور ملے گا۔ بشرطیکہ نیت دکھاوے کی نہ ہو، نہ احسان جتانا پیش نظر ہو اور نہ اس میں کوئی ذاتی مقصد اور نفسانیت ہو بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کام کیا جائے جس کا ایک اثر یہ بھی ہونا چاہیے کہ اگر اس کی طرف سے کوئی شکریہ یا صلہ موصول نہ ہو تب بھی اس کام کو بے کار نہ سمجھے اور یہ سوچے کہ اجر اس سے نہیں، اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوگا۔
دوسروں کیلئے ایثار کرو اور تھوڑی سی قربانی بھی دو
اسلام کی تعلیم صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ بس دوسروں کے صرف واجب حقوق ادا کردیئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تعلیم اسلام نے دی ہے کہ دوسروں کے لیے ایثار کرو، تھوڑی سی قربانی بھی دو۔ یقین کریں کہ جب آپ دوسرے مسلمان بھائی کے لیے قربانی دیں گے تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمہارے دل میں جو سکون، عافیت اور راحت عطا فرمائیں گے، اس کے سامنے بینک بیلنس کی خوشی ہیچ در ہیچ ہے چونکہ ہم نے ایثار اور قربانی پر عمل چھوڑ رکھا ہے اور ہماری زندگی میں اب ایثار کا کوئی خانہ ہی نہیں رہا کہ دوسروں کی خاطر تھوڑی سی تکلیف اُٹھالیں، تھوڑی سی قربانی دیدیں، اس لیے اس قربانی کی لذت اور راحت کا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔
سب سے افضل عمل
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ’’ای الاعمال خیر؟‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے یہاں کون سے اعمال سب سے بہتر ہیں؟ جواب میں ارشاد فرمایا: ’’ایمان باللّٰہ وجہاد فی سبیلہ‘‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر عمل اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ہے اور دوسرے اس کے راستے میں جہاد کرنا ہے، یہ دونوں افضل الاعمال ہیں۔ پھر کسی نے دوسرا سوال کیا کہ ’’ای الرقاب افضل؟‘‘ یعنی کون سے غلام کی آزادی زیادہ افضل ہے؟ اس زمانے میں غلام اور باندیوں کو آزاد کرنے کی بہت فضیلت بیان فرمائی تھی تو کسی نے سوال کیا کہ غلام آزاد کرنا تو افضل ہے لیکن کون سا غلام آزاد کرنا زیادہ افضل ہے اور زیادہ موجب ثواب ہے؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ جو غلام زیادہ قیمتی ور زیادہ نفیس ہے، اس کو آزاد کرنا زیادہ موجب اجر و ثواب اور زیادہ افضل ہے۔ پھر کسی نے سوال کیا کہ حضور! یہ بتایئے کہ اگر ان میں سے کوئی عمل نہ کرسکوں۔ مثلاً کسی عذر کی بناء پر جہاد نہ کرسکوں، غلام آزاد کرنے کا عمل تو اس وقت کرے جب آدمی کے پاس غلام ہو یا غلام خریدنے کے پیسے ہوں لیکن میرے پاس تو غلام بھی نہیں اور پیسے بھی نہیں تو پھر میں کس طرح اجر و ثواب زیادہ حاصل کروں؟ جواب میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس صورت میں تمہارے لیے اجر و ثواب حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی شخص جو بگڑی ہوئی حالت میں ہو تو تم اس کی مدد کرو۔
دوسروں کو تکلیف سے بچانا سنت ہے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا: ’’المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ‘‘ یعنی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، نہ زبان سے دوسرے کو تکلیف پہنچے، نہ ہاتھ سے دوسرے کو تکلیف پہنچے لیکن یہ چیز اسی کو حاصل ہوتی ہے جس کو اس کا اہتمام ہو اور جس کے دل میں یہ بات جمی ہوئی ہو کہ میری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دُنیا میں تین قسم کے جانور پیدا کیے ہیں۔ ایک قسم کے جانور وہ ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں، تکلیف نہیں پہنچاتے مثلاً گائے ہے، بھینس ہے، بکری ہے، تم ان کا دودھ استعمال کرتے ہو اور بالآخر ان کو ذبح کرکے ان کا گوشت کھا جاتے ہو، گھوڑا ہے، گدھا ہے، تم ان پر سواری کرتے ہو، دوسری قسم کے جانور ایسے ہیں جو دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہیں جیسے سانپ، بچھو ہیں، درندے ہیں، یہ جانور انسان کو تکلیف پہنچاتے ہیں، فائدہ نہیں پہنچاتے۔ تیسری قسم کے جانور وہ ہیں جو نہ انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور نہ ہی تکلیف دیتے ہیں۔ اس کے بعد امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ انسانوں سے مخاطب ہوکر فرما رہے ہیں: اے انسان! اگر تم ایسے جانور نہیں بن سکتے جو دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں تو کم از کم ایسے جانور بن جاؤ جو نہ فائدہ دیتے ہیں نہ تکلیف دیتے ہیں۔ خدا کے لیے ایسے جانور مت بنو جو دوسروں کو تکلیف ہی پہنچاتے ہیں، فائدہ کچھ نہیں پہنچاتے یعنی کم از کم تم اپنے شر سے لوگوں کو محفوظ کرلو اور یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا خلاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سنت والی زندگی اپنانے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر مطلوبہ کیٹگری میں دیکھئے ۔ اور مختلف اسلامی مواد سے باخبر رہنے کے لئے ویب سائٹ کا آفیشل واٹس ایپ چینل بھی فالو کریں ۔ جس کا لنک یہ ہے :۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M
