اہل علم کی بے ادبی کا وبال
مذکورہ بالا سطور سے جب یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ اہل علم کا آپس میں اختلاف امر ناگزیر ہے پھر اہل علم کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کرنا کتنی سخت محرومی کی بات ہے حالانکہ اتباع کا منصب یہ تھا کہ علمائے حق میں سے جس سے عقیدت ہو اور اس کا عالم باعمل ہونا محقق ہوجائے اس کے ارشادات پر عمل ہو۔
لیکن ہم لوگوں میں باوجود اد عائے محبت و عقیدت تو ندارد ہے ساری محبت کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے بڑے کی حمایت میں دوسروں کے بڑوں کو گالیاں دیں یہ کتنا بڑا جرم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میری طرف سے اس کو اعلان جنگ ہے تو خود سمجھ لو کہ اللہ جل شانہ سے لڑائی کرکے دنیا میں کون شخص فلاح پا سکتا ہے اور آخرت کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔
صاحب مظاہر حق نے لکھا ہے کہ اللہ سے بندہ کی لڑائی دلالت کرتی ہے خاتمہ بد ہونے پر ایک مسلمان کے لیے خاتمہ بالخیر ہونا انتہائی مرغوب اور لازوال نعمت ہے اور جس چیز سے خاتمہ خراب ہونے کا اندیشہ ہوتو تم ہی سوچو کہ کتنی خطرناک چیز ہوگی۔
