اہل حق کا فیضان
جماعت اہل حق کے سرخیل مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی تابندہ زندگی کے نقوش
مولوی حافظ محمد اسماعیل صاحب جو کہ اہل سنت و الجماعت کہلانے والے دوسرے مسلک کے بانی کے شاگرد مرید اور خلیفہ تھے اور اپنے مسلک کے زبردست مبلغ تھے اور ہمارے اکابر کے شدید مخالف تھے۔۔۔ ان کا واقعہ ہے کہ جب انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی علمیت۔۔۔ احسان و سلوک میں ممتاز حیثیت کا شہرہ سنا تو اپنے بیٹے ضمیر احمد کو پہلے دارالعلوم دیوبند کی شاخ مدرسہ بدرالاسلام شاہ گنج میں داخل کر دیا۔۔۔ پھر تکمیل کیلئے حضرت مدنی رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔۔۔ دارالعلوم دیوبند میں دوران تعلیم مولوی ضمیر احمد صاحب کو اپنڈکس کا شدید درد اٹھا ۔۔۔جسے انکے رشتہ داروں اور متعلقین نے دیوبند کی نحوست قرار دیا اور ان کے والد مولوی محمد اسماعیل صاحب کو فوراً دیوبند پہنچنے کا مشورہ دیا۔۔۔
چنانچہ مولوی محمد اسماعیل صاحب اپنے بیٹے کی تیمارداری اور اسے اپنے ساتھ واپس لے جانے کی غرض سے دیوبند پہنچے اور اس دوران صرف اپنے بیٹے کے پاس ہی رہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مولوی ضمیر احمد صاحب صحت مند ہونے لگے تو ایک دن ہم سبق دوستوں نے انہیں کہا کہ اپنے والد صاحب کو مزار قاسمی(یعنی حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی قبر مبارک) پر لے جائو۔۔۔
چونکہ مولوی اسماعیل صاحب کی اب تک کی زندگی انہی بزرگوں کو برا بھلا کہتے گزری تھی۔۔۔ مولوی ضمیر احمد صاحب نے بڑے اصرار کے بعد اپنے والد کو اکابر کے مزارات پر حاضری کے لیے تیار کیا۔۔۔ مزار قاسمی پر پہنچنا تھا کہ عجیب وارفتگی کا حال ہوا۔۔۔ مولوی اسماعیل صاحب جو کہ ساری زندگی ان اکابر سے متنفر رہے اور لوگوں کو ان کے خلاف بدگماں کرتے رہے ۔۔۔اب خود اپنا یہ حال تھا کہ مزار قاسمی پر پہنچ کر مراقب ہوئے اور دیر تک گردن جھکائے بیٹھے رہے۔۔۔ عصر اور مغرب کی نمازیں مزار سے متصل مسجد میں ادا کیں۔۔۔ مغرب کے بعد واپس آئے تو عجیب حال ہو رہا تھا۔۔۔
آنسوئوں کا سیلاب امڈ چلا آ رہا تھا۔۔۔ استغفار کے کلمات ورد زباں تھے۔۔۔ توبہ توبہ کی رٹ تھی کہ ہائے ہم نے ان علماء حق اور بزرگان دین کو بہت بُرا بھلا کہا تھا۔۔۔ مگر یہاں تو ان کی قبریں اس قدر منور ہیں اور اس قدر یہ کشش والے انسان ہیں کہ ہم نے اپنے علماء میں بھی یہ بات بالکل نہیں دیکھی۔۔۔ بالآخر وہ حضرت مدنی رحمہ اللہ سے بیعت ہوئے۔۔۔ فرحمۃ اللّٰہ علیہم رحمۃً واسعۃ۔۔۔ (چراغ محمد)