اہل حق اور مخالفین کا اختلاف
یہاں سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوگئی جو آج کل اہل حق اور مخالفین میں اتفاق کرانا چاہتے ہیں اور دونوں جماعتوں پر باہمی نا اتفاقی کا الزام دہراتے ہیں کہ اسلام کو ضرر پہنچ رہا ہے سبحان اللہ اس کے تو یہ معنی ہوئے کہ ایک شخص کے گھر پر چور ڈاکہ ڈالیں اور وہ ان پر دعویٰ کردے تو دونوں فریق کو نا اتفاقی کا مجرم قرار دے کر دونوں کو اتفاق پر مجبور کیا جائے بلکہ اس صورت میں ہر عاقل چوروں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ مالک کا مال واپس کرکے اس سے اتحاد کریں مالک کو اتحاد پر کوئی مجبور نہیں کرتا نہ اس کو دعویٰ دائر کرنے سے مجرم قرار دیتا ہے اسی طرح اس صورت میں اہل حق کو جس جماعت سے اختلاف ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ وہ لوگ دین پر ڈاکہ ڈالتے ہیں جو احکام میں تحریف کرتے ہیں ان دونوں میں اتفاق کرانے کی صورت یہی ہے کہ اول حق و ناحق کو معلوم کیا جائے پھر جو ناحق پر ہو اس کو دبایا جائے یہ طریقہ نہایت غلط ہے کہ حق و باطل کی تعیین سے پہلے ہی دونوں فریق کو اتفاق پر مجبور کیا جاتا ہے اور ہر ایک کو دبایا جاتا ہے یہ اتفاق ہرگز قائم نہیں رہ سکتا۔ ( ۱۲ جامع)
صاحبو! جیسے اتفاق مستحسن ہے ایسے ہی کبھی نا اتفاقی بھی مستحسن ہے پس جو لوگ خدا تعالیٰ کے احکام چھوڑنے پر اتفاق کریں ان کیساتھ نااتفاقی کرنا اور مقابلہ کرنا محمود ہے اگر آپ کوئی مکان خریدیں اور اس میں بجائے کچے کوٹھڑوں کے عمدہ کوٹھی بنانا چاہیں تو پہلی عمارت کو گرائیں گے اب بتلائیے یہ فساد محمود ہے یا مذموم اس کے محمود ہونے میں کسی عاقل کو کلام نہیں ۔( مواعظ اشرفیہ)
