اہل حق اور اہل باطل میں تمیز
اگر کوئی کہے پھر اہل حق اور اہل باطل میں تمیز کیسے ہو یہ بھی تو احتمال ہے کہ اہل باطل کا استدلال صحیح ہو اور جن کو اہل حق کہا جاتا ہے ۔
ان کے معنوں میں توڑ مروڑ ہوئی ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس فرق کو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے جس حدیث میں تہتر فرقوں کا بیان ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ اس میں ایک ناجی ہے اور باقی سب ناری اس پر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا ۔ من ھم یا رسول اللہ یہ کونسا فرقہ ہے جو ناجی ہے ۔
فرمایا ماانا علیہ واصحابی یعنی ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ اس مسلک پر ہوں گے جو میرا اور میرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ہے یعنی میرا اور میرے صحابہ کی اتباع کریں گے یہ ایک ایسی پہچان ہے کہ اس سے بہت ہی سہولت سے اہل حق اور اہل باطل میں فرق کیا جاسکتا ہے اب دیکھ لیا جائے کہ کس کے اقوال و افعال حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے اقوال و افعال سے ملے ہوئے ہیں کھینچ تان کر کسی بات کا ثبوت حاصل کرلینا اور بات ہے اس کو ملنا نہیں کہتے ۔( ص ۴۸)
عوام کی یہ حالت ہے کہ انہوں نے قاعدہ کلیہ نکال لیا ہے کہ جب کسی مسئلہ یا عمل میں علماء کا اختلاف ہوتو جدھر لوگ زیادہ ہوں وہ حق ہے نہ معلوم یہ قاعدہ کہاں سے نکالا ہے حالانکہ فقہا نے تصریح کی ہے کہ کثرت ادلہ سے ترجیح نہیں ہوسکتی مثلاً ایک مقدمہ میں دو گواہ ایک طرف ہوں اور سو گواہ ایک طرف ہوں تو حاکم اسلام دونوں کو برابر سمجھے گا یہ کوئی وجہ ترجیح نہیں کہ ایک طرف دو ایک طرف سو۔
البتہ شریعت میں اجماع حجت ہے مگر اجماع اس کا نام نہیں کہ ایک طرف زیادہ جماعت ہوتو بس وہ اجماع ہوگیا فقہاء نے صاف لکھا ہے کہ ایک معتبر عالم کی مخالفت بھی قادح اجماع ہے۔ ( مواعظ اشرفیہ ج۱ ص ۴۸۹)
