اہلسنّت والجماعت

اہلسنّت والجماعت

پیغمبر کا کوئی فعل عبث اور حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مؤلفۃ القلوب (غزوۂ حنین کے بعد جو مال آیا ہے) کو تقسیم کیا ہے اس میں بظاہر مساوات کو مدنظر نہیں رکھا کسی کو تردد ہوا، بعض مخلص بھی تھے اور غیرمخلص بھی جو مخلص تھے ان کا تردد تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دور کیا کہ میرے مال دینے پر انصار یہ کہہ رہے ہیں کہ مصیبت کے وقت ہم اور مال کے وقت قریش فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ جو نئے مسلمان (قریش ہیں) وہ بھیڑ و بکریاں لے جائیں اور تم اپنے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا تھا ان کو اطمینان اور سکون کی کیفیت آگئی کہا اے اللہ کے رسول! ہم راضی ہیں۔ ایک صاحب نے کچھ اعتراض کیا اور جسارت سے کام لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، اس کے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں منتظر رہا کہ تم میں سے کوئی اس کو قتل کردیتا مجھے اس کی نسل سے گمراہی کی بو آتی ہے، میں نے انتظار کیا لیکن تم نے کچھ نہیں کیا اور وہ چلا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ! آپ ہمیں اشارہ فرما دیتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پیغمبر ہوں اور پیغمبر کی آنکھ خیانت نہیں کرتی، یہ تو آپ کے ایمان کا تقاضا تھا کہ آپ اس کو قتل کردیتے لیکن اللہ کی تقدیر غالب ہوئی۔
کہتے ہیں کہ اس کی نسل میں سے خارجی پیدا ہوئے اور یاد رکھو خوارج کا فتنہ وہ ہے جو اُمت کے اندر پہلا اعتقادی فتنہ ہے۔ اس سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں فتنے آئے ہیں لیکن وہ سیاسی فتنے تھے، اعتقاد سب کا ایک ہی تھا، کوئی گروہ بندی نہیں تھی۔ اعتقادی خرابی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں خوارج کے ذریعے آئی ہے اور خرابی یہ تھی کہ انہوں نے قرآن کو اور دین کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہٹ کر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے قرآن کی آیات کا معنی کیا لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل نہیں کیا اور ’’ان الحکم الا للّٰہ‘‘ کا معنی کیا کہ کسی کو ثالث ماننا حرام ہے یہ قرآن کی اس آیت کے خلاف ہے اور جو ایسا کرے گا وہ کافر ہوگا (گویا کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہوگا) یہ ان کا مذہب تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا تھا کہ ان سے قتال کرنا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فتنے کی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشاندہی فرمائی تھی لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تلوار اُٹھانے کا حکم نہیں بلکہ صبر کا حکم دیا تھا۔
فرمایا کہ صبر کرنا تم سے خلافت کی قبا اُتروانے کی کوشش کریں گے مت اُتارنا شہادت قبول کرلینا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حرف بہ حرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کیا اور تلوار نہیں اُٹھائی، مرتبۂ شہادت پر نہایت مظلومی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کو جان دے دی لیکن اُمت کو یکجا رکھنے کی کوشش کی وہ فتنہ سیاسی تھا۔ خوارج کے فتنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
بھائیو! کسی فتنہ میں بعض علامتیں اچھی ہوتی ہیں۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بھی بتلائیں اور بتلانے کا مقصد یہ تھا کہ آدمی ان اچھی علامتوں سے دھوکہ کھا جاتا ہے۔ یہ قرب قیامت کا دور ہے اور فتنوں کا زمانہ ہے ہر مفتن کا عنوان بہت حسین ہوتا ہے جو بھی فتنہ پرور کوئی فتنہ کھڑا کرتا ہے نعرہ اس کا بہت اچھا ہوتا ہے لیکن اس کے پیچھے مقصد اور غرض کوئی اور ہوتی ہے جو بعد میں ظاہر ہوتا ہے۔ گویا حق کو باطل کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ ایک اچھا عنوان قائم کرکے پیچھے مخفی مضمون و مقاصد رکھ کر لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں پھر وہ مقاصد پورے کیے جاتے ہیں۔ دیکھیں! لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض کیا، نعرۂ لگایا، حُب اہل بیت یعنی لوگوں کو دکھایا، حُب اہل بیت اور نکلا بغض صحابہ۔ یہ عنوان اہل سنت اور اہل رفض میں قدرے مشترک ہے اور اہل بیت کی محبت کا ہونا ایمان کی علامت ہے، حُسنِ خاتمہ کے لیے بہترین نسخہ ہے لیکن اس کے ساتھ یہ کہاں لازم آتا ہے کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں سے محبت کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوستوں سے نفرت کرے۔ ایسے ہی فتنہ انکارِ حدیث تھا اور عنوان قائم کیا اتباع قرآن یعنی اہل قرآن نام رکھا۔
بھائیو! قرآن کی اتباع سے کون انکار کرتا ہے، یہ عنوان خوبصورت ہے لیکن اس کے پیچھے سے نکلا انکارِ حدیث۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت میں 73 فرقے ہوں گے، ایک جنتی اور 72 جہنمی ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ کون سا جنتی ہوگا؟ فرمایا جو میرے طریقے پر اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریقے پر ہوگا۔ ’’ما انا علیہ و اصحابی‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا طریقہ کہہ کر اہلسنّت بتایا اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کا طریقہ کہہ کر ’’والجماعۃ‘‘ بتایا یعنی جس سنت کے جاری ہونے پر جماعت کا اتفاق ہو اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا فرمودہ لقب ہے۔
اہل حق کو فتنوں کے ظہور کے دور میں، ہمیشہ صدرِ اسلام سے لے کر آج تک اہل حق (اہل علم) کے اندر یہ اصطلاح رہی ہے کہ انہوں نے اہل حق کو ہمیشہ اہلسنّت والجماعت کے لقب سے یاد کیا ہے اور ان کے مقابلے میں جتنے بھی آئے ہیں ’’معتزلہ، خوارج، جہمیہ، معطلہ، مجسمہ‘‘ اور بہت سے فرقے ہیں لیکن ان سب کو ایک ہی لقب دیا ہے اہل ھوا یعنی اہلسنّت کے مقابلے میں اہل ھوا ہیں (ھوا کے معنی خواہش)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تربیت دی اور ایک طریقہ چھوڑا اور حجۃ الوداع کے آخری خطبہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف امانت منتقل فرمائی تبلیغ دین کی۔
۔’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا‘‘ (المائدہ:3)
یہ اللہ نے بشارت دی کہ تمہارا دین کامل ہوگیا اور اس میں دین کی نسبت صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف کی یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دین کامل ہوا ’’لَکُمْ‘‘ کہا ’’لَکَ‘‘ نہیں فرمایا کہ ہم نے تمہارے واسطے تمہارا دین اور اپنی نعمت کو مکمل کردیا اے جماعت صحابہ! یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو براہِ راست خطاب تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اتباع کرنے والوں کو اپنی رضا کی بشارت قرآن میں دی وہ بھی آخری آیات میں جبکہ غزوۂ تبوک کے بعد جو آیات نازل ہوئیں
۔’’وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ‘‘ الخ (التوبہ:100)
کہ سابقون اوّلون، مہاجرین اور انصار اور وہ لوگ جنہوں نے ان کی پیروی کی اچھائی کے ساتھ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ گویا اللہ نے ایک جماعت کے مقبول ہونے کی بشارت دے دی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دین کو پھیلایا اور تابعین کو دیا، تابعین نے اپنا لقب مفسر نہیں لکھا وہ مفسر قرآن بھی تھے صوفی، قائم اللیل، صائم النھار، مجاہد اور غازی بھی تھے لیکن انہوں نے اپنا شرف، فخر، انتساب ان علوم کی طرف نہیں کیا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ میں عالم ہوں، میں مفسر و محدث ہوں بلکہ انہوں نے اپنے کو تابعی ہونے کا شرف دیا۔ تابعی کے معنی ہیں کہ پیچھے چلنے والا، اتباع کرنے والاکہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پیچھے چلنے والے ہیں۔ گویا جماعت کا ایک چشمہ جاری ہوا، اس چشمہ نے چینل بنایا اور وہ جاری ہے۔
فرقہ بازی شروع تب ہوتی ہے جب دین کا عنوان دے کر پیچھے کسی خواہش کی تکمیل کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے، لوگو! اس بات کو سمجھو۔ اہل حق نے ہمیشہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریقے کی سنت کا بیڑہ اُٹھایا ہے، اسی کو لے کر آگے چلے ہیں، اسی کو بنیاد بناکر انہوں نے دین کو پھیلایا ہے اور جو علوم اللہ نے ان کو عطا فرمائے ہیں وہ اس دائرہ سے باہر نہیں نکلے۔ پہلے انکارِ حدیث کی ضرورت پیش آئی کہ حکمرانوں کی منشاء کے مطابق حدیث نہیں چلتی تو پھر انہوں نے کہا کہ اس کا انکار کردیا جائے اور اس کے لیے کہا ’’حسبنا کتاب اللّٰہ‘‘ اللہ کی کتاب ہمارے لیے کافی ہے یعنی قرآن کی اتباع کا عنوان دیا گیا۔ اس کے بعد فقہ کا انکار کرنا مقصود تھا۔ فقہا کی تقلید سے جان چھڑانا مقصود تھی تو حدیث کا عنوان دیا گیا اہل حدیث۔ اہل حدیث اگر حدیث کی اشاعت کے لیے ہوتا تو حدیث کی اشاعت تو پہلے بھی ہورہی تھی۔ انہوں نے کوئی نئی کتاب تو نہیں لکھی صحاح ستہ ان چھ کتابوں کے مصنف، مؤلف اہلسنّت والجماعت میں سے تھے، کیا انہوں نے اپنے کو اہل حدیث کہا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے محدثین نے اپنی کتابوں میں توحید کو محفوظ رکھا ہے اور جو باطلہ فرقے ہوئے ہیں ان کی تردید کی ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التوحید لکھی جہمیہ اور دوسرے فرقوں کا ردّ کیا ہے، اگر ائمہ کے نزدیک تقلید شرک ہوتی۔ جیساکہ لوگ کہتے ہیں کہ تقلید شرک فی الرسالۃ ہے تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قلم ضرور چلتا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تو کسی امام کو مطعون نہیں کیا، سارے محدثین کسی نہ کسی امام کے مقلد تھے تو ان کی اصطلاح کے مطابق یہ بھی مشرک ہوئے، جب یہ مشرک ہوئے تو ان کی حدیث کیسے معتبر ہوگئی۔
جو بھی عنوان اچھا قائم کیا جائے اہلسنّت والجماعت کے مقابلے میں وہ فرقہ ناجیہ میں سے نہیں فرقہ نار میں سے ہے۔ فرقہ ناجیہ ایک ہی ہے اہلسنّت والجماعت، یہ اور بات ہے کہ ذوق کے مطابق مذاہب (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) ہیں اور وہ کبھی اُمت میں فتنے و افتراق کا باعث نہیں بنے، اگر مسابقت ہوئی ہے تو مرادِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پانے کیلئے اپنے علم کا زور لگایا ہے اور رائے مختلف ہوئی ہے اس میں کوئی قباحت نہیں، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی گنجائش رکھی ہے اور حق کو دائر فرمایا ہے انہی کے درمیان۔ فرمایا کہ مجتہد (محنت کرنے والا) کوئی شخص اُصول کے مطابق کسی دینی مسئلہ کو سمجھنے کے لیے اپنی فکر کو دوڑا کر کسی نتیجہ پر پہنچتا ہے اللہ کی دی ہوئی روشنی سے تو وہ جس منزل کو پالیتا ہے اگر وہ کسی نص سے تصادم نہیں کرتی اور شریعت میں اس کی گنجائش ہوتی ہے، مسئلہ اجتہادی ہوتا ہے اس کو مجتہد کہتے ہیں یعنی تیر اگر صحیح نشانہ پر لگ جائے تو اس کو دو ثواب اگر صحیح نشانہ پر فکر نہ پہنچے تو شریعت نے اس کو بھی قبول کیا ہے اس کے لیے ایک اَجر ہے۔
اُمت کے اندر پہلا اعتقادی فتنہ خوارج کا تھا جنہوں نے دین کو قرآن و حدیث سے ہٹ کر سمجھنے کی کوشش کی۔ ان میں کچھ اچھی نشانیاں بھی تھیں، اچھی نشانیوں و عنوان سے آدمی دھوکہ کھا جاتا ہے، فرمایا وہ قیام اللیل کرتے ہوں گے، سر منڈے ہوئے، ٹخنے ننگے، داڑھیاں لمبی، بہت خشوع و خضوع سے نماز پڑھیں گے، گریہ و زاری سے دُعا کریں گے، لمبے سجدے کریں گے یہ سب اچھی علامتیں تھیں اور یہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں تھیں لیکن ان سب کے بتلانے کا مقصد یہ تھا کہ ان کی فرشتہ صورتوں کو دیکھ کر غلطی نہ کھانا ان میں دین اتنا بھی نہ ہوگا جتنا شکار کو تیر لگ کر نکل جاتا ہے اور خون لگتا ہے، ایسے ہی جب یہ قرآن پڑھتے ہیں تو قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترتا۔ اہل حق میں جو علامت ہو اور وہ باطل فرقہ میں بھی ہو تو اس کو بنیاد بناکر اپنی تبلیغ کرتے ہیں۔
بھائیو! یہ تقلید بھی اللہ کی رحمت ہے قرآن کریم میں ہے:
’’وَمَا کَانَ الْمُؤمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً‘‘
مؤمن سب علم حاصل نہیں کرسکتے مفسر نہیں بن سکتے تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے:۔
۔’’فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْن‘‘ (التوبہ:122)
جو گھر سے فقہ سمجھ حاصل کرنے کے لیے نکلیں، وہ واپس لوٹیں تو اپنے گھر والوں کو ڈرائیں۔ ’’اذا رَجَعُوْا اِلَیْھِمْ‘‘ ہر ایک کو نکلنے کا حکم نہیں ہے کئی ایسے لوگ دیکھے گئے ہیں فرائض کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ ایک امام مسجد صاحب پندرہ دن کے لیے بغیر پوچھے چلے گئے اور نمازی پریشان ہیں حالانکہ وہ تنخواہ لیتا ہے، کیا نماز پڑھانا دین نہیں ہے؟ ایک من علم کیلئے دس من عقل چاہیے بس جو طوطے کی طرح رٹا دیا وہی سمجھ لیا، اللہ کے لیے نکلنا ہے لیکن سلیقہ کے ساتھ ’’وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً‘‘ (المزمل:8) ’’تَبْتِیْلاً‘‘ کی قید لگائی ہے کہ قرینہ سے علیحدہ ہو، بدل دے کر، کام جاری رہے محض ’’تَبَتَّلْ‘‘ نہیں، نقصان اور کام میں حرج نہ ہو، گھر سے نکلنا اُوٹ پٹانگ نہیں ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے باریاں مقرر کی ہوئی تھیں، حصول علم کا بھی طریقہ ہے۔
فقیر یہ عرض کررہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ ان کو تلوار سے مارنا فتنوں کا علاج جہاد ہے:
۔’’اِلاَّ تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْر‘‘ (الانفال:73)
جہاد تو فتنوں کو روکنے کا ذریعہ ہے نہ کہ فساد پھیلانے کا اللہ نے فرمایا کہ اگر تم نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فساد ہو جائے گا۔ آج مفسددندناتے پھر رہے ہیں کہ ہم جہاد بندش کررہے ہیں ان کی شیطنت و بدمعاشی ہے اور سبق یہ پڑھا رہے ہیں کہ یہ دہشت گرد ہیں جہاد کا نام فتنہ رکھ دیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فتنوں سے بچنے کا ایک اُصول بتلایا ہے، ایک جنگ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت کو غلبہ ہونے لگا تو مفتنین نے قرآن کو نیزوں پر لٹکا کر اوپر کردیا اور کہا ’’حسبنا کتاب اللّٰہ‘‘ اس کو ہم حکم بناکر اس کے مطابق فیصلہ کرلیتے ہیں، یہ ایسی چال تھی مجاہدین کے ہاتھ رُک گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک ارشاد فرمایا جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ فرمایا: ’’کَلِمَۃُ حَقٍّ اُرِیْدَبِھَا الْبَاطِل‘‘ بات سچی کررہے ہیں لیکن مقصد جھوٹا ہے۔ گویا تمام فتنوں کا آپریشن کرکے رکھ دیا کہ ہر مفتن بات سچی کرے گا، نعرہ دُرست ہوگا، روٹی، کپڑا، مکان مطلب یہ کہ غریب کوئی نہ رہے، عنوان عالمی برادری اور مقصود مسلمانوں کو ختم کرنا، مسلمانوں کے دیندار طبقہ کا وجود باقی نہ رہے۔
جو نور کا چشمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے جاری ہوا اور الحمدللہ آج تک ایک خاص چینل کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے اور اس میں کہیں انقطاع نہیں آیا، اس کو تواتر کہتے ہیں، اس تواتر پر ایمان لانا فرض ہے۔ جب مرزائیوں کا فتنہ کھڑا ہوا اور مقدمہ ہوا تو حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی تشریف لائے۔ مرزائیوں کی واردات یہ ہے کہ مسلمان کی تعریف کرو جو تم تعریف کرو گے ہم بھی وہی کلمہ پڑھتے ہیں، نماز، زکوٰۃ سب کچھ کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں کافر کیوں کہتے ہو؟ حضرت رحمہ اللہ نے یہ فرمایا کہ تواتر کا انکار کفر ہے یعنی جو دین کے مسائل اتنے مشہور ہوچکے ہیں جس کو ہر عام و خاص جانتا ہے بغیر دلیل کے اس بات کا ماننا اسی معنی کے لحاظ سے جو صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے اس پر ایمان لانا فرض ہے جو انکار یا تاویل کرے وہ کافر ہے۔ جیسے نماز پانچ ہیں اس کو بڑا، چھوٹا، عالم سب جانتے ہیں اور ہر زمانے میں اُمت کا غالب طبقہ یہ جانتا و مانتا ہے کہ نمازیں پانچ ہیں، اب اگر کوئی کہے کہ تین یاد وہیں تو اس نے نماز کا نہیں تواتر کا انکار کیا ہے جو اس تواتر کو مانتا ہے وہ کبھی فرقہ بازی کا شکار نہیں ہوتا، وہی فرقہ بازی کا شکار ہوتا ہے، جو اَسلاف پر اعتماد کھو بیٹھتا ہے، ہمارے دور کے ایک مفکر نے برملا کہہ دیا کہ رب، الٰہ کا معنی اُمت سے گم ہوگئے تھے اور عرصہ تک گم رہے ہیں، کہا کہ دین روایت کا مجموعہ رہ گیا ہے اور عجیب و غریب بے ہنگم الفاظ اس کے لیے استعمال کیے ہیں، کہا کہ جب میں دین کو سمجھنے لگا تو مجھے اس میں کوئی چاشنی نظر نہ آئی ،میں نے تقلید کا طوق پھینک دیا، نئے سرے سے دین کو سمجھا اور جو دین مجھے سمجھ میں آیا اس پر یقین ہوگیا کہ یہ دین ہے تو اس کی دعوت میں مسلمانوں اور دوسروں کو دیتا ہوں۔
بھائیو! ذرا سوچو کہ ان باتوں کا کیا معنی نکلتا ہے؟ اس کا معنی یہ ہے کہ جو دین حضور صلی اللہ علیہ وسلم لائے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھیلایا، علماء و فقہاء نے آگے چلایا تھا، وہ ایک عرصہ تک رہا، پھر بے جان ہوگیا، لوگوں میں چند رسومات رہ گئیں اور ان رسومات کا نام دین رکھ لیا ہے۔ موصوف یہ کہتے ہوئے یہ بات بھول گئے کہ میں دین کہاں سے سمجھوں گا کتابیں انہی کی دیکھیں جن کو گالیاں نکال رہے ہو، کتنے لوگوں کو مجروح کردیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے کہ سلف پر اعتماد جس کا اُٹھ گیا، اس کا دین گیا اسلاف پر اعتماد قائم ہے تو ہم مسلمان ہیں۔
فقیر آسان پیرائے میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم سب مسلمان ہیں، اللہ ایک ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری رسول مانتے ہیں، قرآن جیسے نازل ہوا تھا ویسے ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جو صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنائی تھی وہ آج تک جاری ہے، ان سب پر یقین ہے اور اس پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ آپ کی طبیعت، نفس، دماغ اس بات کو سمجھنے کے لیے دلیل مانگتا ہے کہ نہیں یا برملا جواب دیتے ہیں جیسے کوئی میرے والد کا نام پوچھے تو فوراً نام بتاؤں گا، یہ یقین ہمیں کیسے حاصل ہوا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کبھی غلط نہیں نکلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استدلال قوی تھا، وہ ہمارا نہیں ہوسکتا) نہایت خلوص کے ساتھ اپنے محبت کرنے والے چچا کے دل میں یہ بات اُتارنے کی کوشش کی نہیں اُتری، ابوجہل کو سمجھ نہیں آئی اور ہمیں آگئی ہے اس پر غور کریں کہ اللہ ایک ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں ۔قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحیح طریقہ ہے
یہ علم مسلمان کے جس بچہ، مرد، عورت کو آ جاتا ہے وہ اس کو زمین سے لے کر آسمان کی بلندی پر لے جاتا ہے، دُنیا کے سارے فلاسفر آئن سٹائن، افلاطون سارے عقلاء جن کو یہ علم نہیں بے وقوف ہیں، جن کو یہ پتہ نہیں کہ خنزیر حلال ہے کہ حرام، لوگو! اس علم کے پیچھے بہت بڑی دولت ہے، کون سی وہ بات ہے جو ان کو جان دینے پر مجبور کردیتی ہے، یہی یقین ہے۔ یہ یقین کہ میں حق پر ہوں، اگر اللہ کے راستے میں جان دے دوں گا تو میری جان ضائع نہیں ہوئی، بک گئی، اس علم کے پیچھے صدیوں پر محیط محنت ہے۔ علماء، اَسلاف، ماں، باپ، اساتذہ کی محنت جو بچے بچے تک یہ علم پہنچ گیا ہے کیا یہ احسان تھوڑا ہے۔
فرض کریں کہ ہمارا اعتماد اُٹھالیا جائے کہ پہلی نسلیں بے وقوف تھیں، مولوی جاہل تھے، محدث پاگل تھے، رٹی ہوئی باتیں ظاہر کردیتے ہیں، اگر یہ باور کرایا جائے جیساکہ انگریزی سکولوں میں باور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اب دُنیا بہت ایڈوانس ہوگئی ہے اور مولوی وہی استنجاء کے مسائل سکھا رہا ہے، بدبخت یہ نہیں سمجھتے کہ اگر انسان چاند پر بھی چلا جائے تو کیا پیشاب آنا بند ہو جائے گا، کیا اس کو صفائی کا طریق نہیں آنا چاہیے؟ ملتان کے ایک ڈاکٹر صاحب چین گئے، کہنے لگے کہ وہ لوگ جانور کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک پبلک باتھ ہے جس میں بہت سے مرد و خواتین بیٹھے ہیں جو کھا پی رہے ہیں، باتیں بھی کررہے ہیں اور بول و براز بھی کررہے ہیں، کوئی پردہ نہیں ہے، استنجاء کا تصور بالکل نہیں ہے۔ شیطان اس وقت یہی کوشش کررہا ہے کہ اس اعتماد کو مجروح کرکے اُمت کا رابطہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے کاٹ دیا جائے، اس کے لیے کوششیں ہیں، نبوت کھڑی کی گئی، اہل حدیث و اہل قرآن آئے تاکہ سلف صالحین پر پانی پھیر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دین کی حفاظت کے لیے حصار بنائے ہیں، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات حصار، قرآن کا وجود حصار اس کی حفاظت کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم پھر تابعین رحمہم اللہ، تبع تابعین رحمہم اللہ۔
یہ بھی یاد رکھیں جو بھی فتنہ اُٹھا ہے اس کی سرکوبی اہلسنّت نے کی ہے اور یہی جھگڑالو نظر آتے ہیں میرے گھر پر چور ڈاکہ مارے اور میرے گھر کا کتا اگر اس کو بھگا دے، لڑے، اس کو چیرے پھاڑے کیا یہ اس کا عیب ہے؟ وہ کتا آفریں و شاباش کے لائق ہے کہ نہیں! مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ علماء کی مجلس میں بیٹھے تھے کسی نے کہہ دیا کہ آپ کے طرزِ بیان میں تیزی زیادہ ہے، مودودی صاحب پر آپ جس طریقہ سے تنقید کرتے ہیں وہ مناسب نہیں، الفاظ مناسب رکھیں، سننے کے بعد فرمایا کہ آپ علماء ہیں، مجھے اپنے گھر کا چوکیدار یا کتا سمجھ لیں، کتے نے چور کو دیکھا ہے اس کا فرض بنتا ہے بھونکے یا چپ رہے اور چور دوست کے لباس میں آیا ہے جب مالک جاگ جائے تو وہ خاموش ہو جائے کہنے لگے ٹھیک ہے کہ نہیں، آپ مجھے یہی سمجھ لیں۔
دوستو! شکر کریں محنت ہورہی ہے اگر یہ نہ ہوتی تو دین محفوظ نہ رہتا، جہاں علماء نہیں گئے، مسجد و مدارس نہیں بنے، اہل حق کا قافلہ نہیں پہنچا وہاں آج بھی اندھیرا ہے۔ اللہ پاک صحیح سمجھ عطا فرمائیں۔
۔’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: دیکھو دُنیا میں اس طرح رہنا گویا مسافر ہو اور مسافر بھی وہ جو راہ طے کررہا ہو۔‘‘(مجالس ناصریہ، ص:۴۱۰)

Most Viewed Posts

Latest Posts

صحابہ رضی اللہ عنہم معیارِ حق

صحابہ رضی اللہ عنہم معیارِ حق حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔۔’’حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم شریعت کا معیار تو نہیں ہیں کہ وہ شریعت بنائیں‘ البتہ وہ شریعت کے متبع ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس بات کا...

read more

دینِ اسلام کو ہدفِ تنقید بنانے کے چندبنیادی اسباب وعلامات

دینِ اسلام کو ہدفِ تنقید بنانے کے چندبنیادی اسباب وعلامات دینِ اسلام کے متعلق منفی اور تنقیدی ذہنیت کی درج ذیل بارہ علامات ہیں:۔ ۔1۔۔علومِ قرآن وسنت سے ناواقفیت قرآن وسنت کو صحیح طور پر جاننے‘ سمجھنے اور اس سے دین وشریعت کے مسائل استنباط کرنے کے لیے عربی زبان کے...

read more

اَسلاف پر اعتماد ناگزیر ہے

اَسلاف پر اعتماد ناگزیر ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کتاب اللہ و سنتی، جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ یہ باتیں آپ کو بتائیں گے بہت لیکن سمجھائیں گے بہت کم کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی...

read more