اگر کفار زیادہ خوشحال ہیں ۔۔۔ تو مسلمان مایوس نہ ہوں (82)۔

اگر کفار زیادہ خوشحال ہیں ۔۔۔ تو مسلمان مایوس نہ ہوں (82)۔

آج کل اکثر مسلمانوں کو یہ شکوہ رہتا ہے کہ انگریز اور غیر مسلم لوگ اتنی ترقی کرگئے ہیں کہ چاند پر پہنچ گئے اور وہ ہر کام کررہےہیں۔ جو اُنکا دل چاہتا ہے وہی کرتے ہیںجب اُنکا دل چاہتا ہے تو کپڑے اتار کر پھرتے ہیں اور جب اُنکا دل چاہتا ہے تو کتے بلی پالنے کوشوق بنا لیتےہیں تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ بڑے مزے میں ہیں اور ہم مسلمان تو مجموعی طور پر بے سکونی، بدحالی اور پریشان حالات کا شکار رہتے ہیں۔ ہر وقت ہمارے مالی مسائل میں گھرے رہتے ہیں اور ہر چیز میں ہمیں حدود و قیود کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ترقیاتی امور میں اگر کوئی چیز اسلام کے خلاف ہورہی ہوتو ہم پھر اُسکو روک دیتے ہیں اور دنیا سے پیچھے رہ جاتےہیں۔
تو دوستو! یہ ساری صورتحال بالکل ٹھیک ہے اور یہ عین مطابق بیٹھ رہی ہے ایک حدیث کے مفہوم پر۔ حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ مومن کے لئے یہ دنیا ایک قیدخانہ کی طرح ہے اور کافر کے لئے یہ دنیا جنت ہے۔ تو اسمیں کوئی اچنبھے والی بات نہیں ہے کہ کافروں کی دنیا بہت آسان، راحتوں سے بھرپور اور آسائشوں سے بھری ہوئی ہو۔ اور مسلمانوں کو ہر چیز میں ایک محدود اجازت ہوتی ہو۔
کیونکہ یہ بات تو اللہ تعالیٰ کے فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ہے کہ کفار اس دنیا میں اتنی عیش پرستی دیکھ لیں گے کہ ایک بٹن دباتے ہی سب کچھ میسر ہوجائے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ایک مفہوم یہ بھی ملتا ہے کہ یا اللہ اس دنیاکی عیش تو کوئی معنی نہیں رکھتی پس ہمیں آخرت کی عیش ضرور عطا کرنا۔ دنیا اگرچہ اللہ والوں پر تنگ ہوجائے، مسلمانوں پر معاشی حالات خواہ تنگ ہوجائیںاور اگرچہ ظاہری ترقی میں ہم لوگ پیچھے رہ جائیں مگر اپنے ایمان کی حفاظت کرتے رہے اور اِسکو فتنوں سے بچا کر چلتے رہے تو یہ عارضی مصیبتیں آج نہیں تو کل ضرور ختم ہوجائینگی۔پھر ہمیشہ ہمیشہ کی خوشی ملےگی۔
ان مصائب اور حالات پر مایوس قطعاً نہ ہوں اور نہ ہی ان سے یہ دلیل پکڑیں کہ مسلمان کچھ غلط کررہے ہیں یا اسلامی تعلیمات (العیاذ باللہ) اب ترمیم طلب ہوگئی ہیں۔ بلکہ صبر کا دامن پکڑ کر چلتے رہیں اور اگر کوئی کہے کہ فلاں کافر ملک نے اتنے ترقی کرلی ہے تو اُسکو جواب میں کہہ دیں کہ ہماری اصل دولت اور ترقی ایمان کی ہے۔اگر ایمان سلامت رہے تو پھر اللہ تعالیٰ ہمیں جس حال میں بھی رکھیں وہ ہمیں منظور ہے۔ ہم اسی حال پر خوش ہیں۔ ہم صرف ایک حد میں رہ کر ہی دنیا میں زندگی بسر کریں گےاور اسی حد کی پابندی میں رہتے ہوئے ہم جس حال میں رہیں گے خوش رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی حقیقت سے آگاہ فرمادیں اور اس عارضی دنیا کے تمام شرور اور ظاہری محاسن سے ہماری حفاظت فرمادیں ۔ آمین۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more