اپنے محسن کو تکلیف دینے والے نہ بنیں! (84)۔
ہر وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ مال و دولت سے نوازتے ہیں اُسکے دل میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ وہ کسی پر احسان کرے اور اُسکے لئے آسانی پیدا کرے مگر یہ جذبہ قابو میں رکھنا بہت ضروری ہے۔
احسان کرنے کو بھی ایک حد میں رکھنا چاہئے کیونکہ ایک مشہور مقولہ ہے کہ جس پر احسان کرو اُسکے شر سے بچو۔ اس پر کچھ مشاہدات نظر سے گزرے جن کو آپ تک پہنچانا ضروری ہےجن میں سے پہلا واقعہ یہ ہے کہ ایک سنار کے پاس بہت عرصے سے ایک ملازم کام کررہا تھا۔ تو اُس سنار نے احسان کرتے ہوئے یہ سوچا کہ میں اسکو اپنی دوکان بنوا دیتا ہوں تاکہ اب اسکا روزگار لگ جائے۔ تو اُس زرگر نے اپنی مارکیٹ میں ہی تھوڑا سا دور کرکے اپنے پیسوں سے دوکان خریدی اور اچھا خاصا پیسہ اپنی طرف سے لگا کر ملازم کو دوکان بنا دی۔ جب ملازم شفٹ ہوگیا تو کچھ دن بعد وہ مالک سے ملنے آیا کہ مجھ سے وہاں کام نہیں ہوگا اور میں بہت پریشان ہوں۔ مالک نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو ملازم نے بتایا کہ وہاں پر قالین بچھا ہوا نہیں ہے اسلئے مجھے بہت تنگی ہوتی ہے اور مجھ سے یہ الگ کام نہیں ہوگا۔
اگرچہ آپکو بھی سن کر حیرانی ہورہی ہوگی کہ اتنی چھوٹی سی بات پر وہ بددل ہوگیا؟ مگر حقیقت یہی ہے کہ کسی پر احسان کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے۔ کل ہی ایک واقعہ سنا کہ ایک ملازم کو مالک نے الگ دوکان ڈال کر دی اور سارا خرچہ بھی کیا۔ مگر ملازم چند دن بعد واپس آگیا کہ وہاں پر قریب میں ایک تنور ہے جس کی وجہ سے بہت گرمی ہوتی ہے لہٰذا میں وہاں پر کام نہیں کرسکتا۔ اس واقعہ کو سن کر میں بہت حیران ہوگیا مگر حقیقت یہی ہے کہ جس پر احسان کیا جائے وہ ضرور چوٹ پہنچاتاہے۔
ایک اور واقعہ بھی مجھے یاد آگیا کہ ایک جلد ساز کی چھوٹی سی دوکان تھی جس میں اُسکا کرایہ بھی پورا نہیں ہوتاتھا۔ صرف ایک کمرہ میں مشین، کاریگر اور تمام سامان رکھا ہوا تھا۔ اُس پر کسی مالدار کتب خانہ والے نے مہربانی کردی اور جلدخانہ کو چلانے کی اتنی آسانی کردی کہ تمہیں باقاعدہ طور پر کام دیا جائے گا اور تمہارے کاریگر، مشین اور معمولات کو مسلسل جاری رکھا جائے گا تاکہ تمہارا کاروبار درست ہوجائے۔ پھر یوں ہی ہوا کہ مسلسل کام ملتارہا، مہربانیاں ہوتی رہیں اور اُس جلد ساز نےکچھ ہی عرصہ میں بڑی جگہ لے لی، بڑی مشین لے لی اور کاروبار نے اتنی ترقی کرلی کہ وہ خودانحصاری کے مقام پر پہنچ گیا۔ پانچ سات سال گزرنے کے بعد کتب خانہ پر اعتماد بھی بن گیا تو اُس نے پھر اس اعتماد کافائدہ اٹھا کر کتابیں چوری کرنا بھی شروع کردیںاور جب چوری پکڑی گئی تو بجائے غلطی تسلیم کرنے کے اُس نے اپنے محسن کے خلاف ہی بغاوت اور بدنامی کا مشن بنالیا۔ بس پھر جو اُسکو ترقی ملی تھی اُس نے سارا پیسہ اور ساری کوشش اپنے محسن کو سبق سکھانے میں لگا دی۔تو جو سبق اُس نے اپنے محسن کو سکھایا وہ آپ بھی سمجھ لیں کہ کسی پر اتنی مہربانی یا اتنا احسان نہ کریں کہ وہ آپکے لئے ہی خطرہ بن جائے۔ اس طرح کے اور واقعات بھی مشہور ہیں مگر ابھی انہی پر اکتفاکرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور احسان کرنے والا بنائے اور احسان کرنے والے کو تکلیف پہنچانے والوں میں سے نہ بنائے۔ آمین ۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

