اپنی مساجد پر ظلم نہ کرو۔۔۔ انکے حقوق کا دھیان کرو (12)۔
ہر مسلمان معاشرے کا سب سے اہم مرکز مسجد ہوتا ہے۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں پر اردگرد کے تمام مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں۔ خواہ وہ جس حال کے بھی ہوں مگر مسجد میں ضرور پہنچتے ہیں۔ اور دنیا کی تمام قوموں کا یہ اصول رہا ہے کہ اپنے گھر چاہے جیسے بھی ہوں مگر مرکز کو وہ ایک خوبصورت، منظم اور پرکشش جگہ بناتے ہیں۔
لیکن افسوس ! ہم مسلمانوں نے اپنے گھروں کو تو زیب و زینت کی انتہاء پر پہنچایا مگر مساجد کے ساتھ جو سلوک آج کل ہورہا ہے وہ لفظوں میں بیان نہیں ہوسکتا۔ مظلوم مسجدیں متولی کی جاہلیت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اور مسلمانوں کی مرکزیت ختم ہوجاتی ہے۔ کہاں وہ وقت کہ مسلمان پوری دنیا پر حکمران تھے اور انکا اتحاد و اتفاق دنیا کی ہر مضبوط چیز سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا تھا مگر کہاں آج کل کے حالات کہ مسجد میں ہی اکٹھا ہونے سے گریزاں ہے اور اجتماع کا یہ مرکز خالی ہی نظر آتا ہے۔
اسمیں جہاں آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم لوگوں کے ایمان کمزور ہوچکے ہیں وہیں ایک سوچ یہ بھی پیدا ہوسکتی ہے کہ مسجد کو اس قابل نہیں بنایا جاتا کہ سب لوگ وہاں پر جمع ہوسکیں۔ صرف اور صرف ایک چیز کی اہمیت کو سمجھا جاتا ہے کہ مسجد میں امام موجود ہو۔ وہ بھی جس حال کا ہوتا ہے، ناقابل بیان ہے۔ مگر امام کے علاوہ مسجد کی ہر چیز کو غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ مثلاً عام متولی حضرات کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ اگر امام موجود تو نماز ہوگئی۔ اس کے علاوہ مسجد کی صفائی، مسجد کا انتظام، آنے والوں کی راحت کا سامان، مسجد کے قالین اور دریوں کی صفائی، مسجد کے وضوخانہ کی صفائی اور در ودیوار کی مرمتیں وغیرہ۔ یہ سب چیزیں بالکل توجہ کے قابل نہیں سمجھی جاتیں۔ حالانکہ ان چیزوں کا بھی کلیدی کردار ہوتا ہے ۔ مسجد کے بیت الخلاء کی صفائی کئی دن گزرجانے کے بعد بھینہیں کرتےبلکہ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب تک کام چل رہا ہے تب تک صاف ہیں۔ بعضے مساجد کی لیٹرین کی بدبو پوری مسجد میں پھیلی ہوئی ہوتی ہے اور وضوخانہ کو باقاعدہ دھونے کا اہتمام تو شاید ہی پاکستان کی کسی مسجد میں ہو۔العیاذ باللہ ۔
یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہےکہ متولی یہ کوشش کرتے ہیں کہ مسجد میں ایک امام ہواورایسا شخص مل جائے جو اذان دے، پوری مسجد کی صفائی کرے، ٹوٹی پھوٹی چیزوں کی مرمت بھی کروائے، انتظام بھی سنبھال لےاور بوقت ضرورت نائب امام بھی بن جائے۔
خدارا! اپنے مرکز کے ساتھ یہ سلوک نہ کریں۔ محلہ کے ہر فرد کو چاہئے کہ ممکنہ احسن طریقے سے متولی کو توجہ دلائے۔ کم از کم پانچ افراد کی کمیٹی طے ہونی چاہئے اور یہ پانچ افراد ہر نماز میں موجود ہوں ۔ تبھی مسجد کا حق ادا ہوگا ورنہ یہ تین لوگ (متولی، نمازی اور امام) مسجد کے حق میں ظالم شمار ہوں گے ۔
پانچ افراد جو کہ کم از کم چھوٹی سی مسجد کیلئےضروری ہیں۔متولی، ایک امام، مؤذن، منتظم اور صفائی ستھرائی کا ذمہ دار ۔ جب تک یہ پانچ اشخاص ہر نماز میں موجود نہ ہوں گے تب تک مسجد سے لوگ نہیں جڑیں گے اور اگرکچھ لوگ جڑگئے تو بھی ایسی بے دلی سے کہ مجبوری میں جماعت کے لئے آگئے اور پھر جلدی سے نکلنے کی کوشش میں ہوں گے ۔ پھر اس عمل کو ایمان کی کمزوری نہ سمجھئے گا۔!!!۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔ آمین
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online/
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M