اپنی اصلاح کے بجائے دوسروں کے پیچھے پڑنا
ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ اب میں ایک مشغلہ بیان کرتا ہوں جو اس عیب گوئی، عیب جوئی کا شعبہ ہے اور جس میں بہت سے پڑھے لکھے آدمی بھی پڑے ہوئے ہیں اور اس کے مفاسد پر تو کیا نظر ہوتی ، اس کو اچھا کام سمجھے ہوئے ہیں۔ وہ یہ کہ اپنی فکر چھوڑ کر دوسروں کی اصلاح کے درپے ہوتے ہیں۔ ظاہراً یہ ایک نیک عمل معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں ایک شیطانی دھوکہ ہے جس کا بیان یہ ہے کہ بعض لوگ غیبت اور عیب جوئی وغیرہ سے احتراز کرنا چاہتے ہیں اور شیطان ان کو بہت ترکیبوں سے اس میں مبتلا کرنا چاہتا ہے اور جب کوئی داؤ نہیں چلتا تو یہ سمجھاتا ہے کہ دوسروں کی اصلاح کرو۔ اس دام میں آکر دوسروں کے عیوب پر نظر ڈالنے کی عادت ہو جاتی ہے اور دل میں یہ اطمینان ہو جاتا ہے کہ ہم عیب جوئی ( اور غیبت ) تھوڑی کرتے ہیں بلکہ اس کی اصلاح کے درپے ہیں ۔ جہاں کہیں بیٹھتے ہیں ان عیبوں کو ذکر کرتے ہیں اور اچھی طرح غیبت کر لیتے ہیں۔ ہاں آخر میں دل کو تسلی دینے کے لیے اور اپنی برأت قائم رکھنے کے لیے کہہ دیتے ہیں کہ بھائی خدا اس کے حال پر رحم کرے، یہ عیب اس میں ہیں، ان کو دیکھ کر بڑا دل دُکھتا ہے، ہم بطورِ غیبت کے نہیں کہتے بلکہ ہم کو ان سے تعلق ہے، یہ برائیاں دیکھ کر ہم کو رحم آتا ہے، خدا کرے یہ برائیاں کسی طرح چھوٹ جائیں۔ سبحان اللہ! بڑے خیر خواہ ہیں ،سر سے پیر تک تو اس کا گوشت کھالیا ( یعنی غیبت کی ) مجمعوں میں اس کو ذلیل کیا اور ایک کلمہ سے بری ہو گئے۔ یہ سب نفس کی چالیں ہیں، اس سے آپ کو دو نقصان پہنچتے ہیں، ایک اپنی اصلاح سے غفلت، دوسرے غیبت وغیرہ گناہ میں پڑنا۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ عبدالمتین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

