اُمت میں اتفاق و اتحاد کی دینی و دُنیاوی ضرورت و اہمیت
حضرت مولانا محمد اسلم شیخوپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔
یہ ایک قسم کا عذاب ہے کہ قوم مختلف پارٹیوں میں بٹ کر آپس میں بھڑ جائے۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے سورئہ انعام کی آیت نمبر ۶۵ میں عذاب الٰہی کی تین قسموں کا ذکر فرمایا ہے، اس میں تیسری قسم عذاب کی جو اس آیت میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے: ’’أَوْیَلْبِسَکُمْ شِیَعًا‘‘ یعنی تمہاری مختلف پارٹیاں بن کر آپس میں بھڑ جائیں اور باہم ایک دوسرے کے لیے عذاب بن جائیں۔۔۔۔
اس میں لفظ ’’یَلْبِسَکُمْ‘‘ لبس کے مادہ سے بنا ہے، جس کے اصلی معنی چھپا لینے اور ڈھانپ لینے کے ہیں۔۔۔۔ اسی معنی سے لباس ان کپڑوں کو کہا جاتا ہے، جو انسان کے بدن کو ڈھانپ لے اور اسی وجہ سے التباس بمعنی شبہ و اشتباہ استعمال ہوتا ہے جہاں کسی کلام کی مراد مستور ہو صاف اور کھلی ہوئی نہ ہو۔۔۔۔
اور لفظ ’’شِیَعَ شِیْعَۃٌ‘‘ کی جمع ہے۔۔۔۔ جس کے معنی ہیں کسی کا پیرو اور تابع۔۔۔۔ قرآن مجید میں ہے: وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَاِبْرٰھِیْمَ) یعنی نوح علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں ابراہیم علیہ السلام۔۔۔۔‘‘۔
اسی لیے عرف و محاورہ میں لفظ شیعہ ایسی جماعت کے لیے بولا جاتا ہے جو کسی خاص غرض کے لیے جمع ہوں اور اس غرض میں ایک دوسرے کے معاون ہوں۔۔۔۔ جس کا بامحاورہ ترجمہ آج کل کی زبان میں فرقہ یا پارٹی ہے۔۔۔۔اسی لیے آیت کا ترجمہ یہ ہو گیا کہ عذاب کی ایک قسم یہ ہے کہ قوم مختلف پارٹیوں میں بٹ کر آپس میں بھڑ جائے، اسی لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا:۔
۔’’لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا یَّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ‘‘(صحیح مسلم)
ترجمہ: ’’یعنی تم میرے بعد پھر کافروں جیسے نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔۔۔۔‘‘۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے۔۔۔۔ ہمارا گزر مسجد بنی معاویہ پر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز پڑھی۔۔۔۔ ہم نے بھی دو رکعت ادا کی۔۔۔۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعاء میں مشغول ہو گئے اور بہت دیر تک دعاء کرتے رہے۔۔۔۔ اس کے بعدا رشاد فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا۔۔۔۔ ایک یہ کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کیا جائے۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی۔۔۔۔ دوسرے یہ کہ میری امت کو قحط اور بھوک کے ذریعہ ہلاک نہ کیا جائے یہ بھی قبول فرمالی۔۔۔۔ تیسری دعا یہ کہ میری امت آپس کے جنگ و جدل سے تباہ نہ ہو، مجھے اس دعا سے روک دیا گیا۔۔۔۔ (مسند احمد)
اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے، جس میں تین دعائوں میں سے ایک دعا یہ ہے کہ میری امت پر کسی دشمن کو مسلط نہ فرما دے جو سب کو تباہ و برباد کر دے۔۔۔۔ یہ دعا قبول ہوئی اور آپس میں نہ بھڑ جائیں اس دعا کو منع کر دیا گیا۔۔۔۔ (سنن ابن ماجہ)
ان روایات سے ثابت ہوا کہ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پر اس قسم کے عذاب تو نہ آئیں گے، جیسے پچھلی امتوں پر آسمان یاز مین سے آئے جس سے ان کی پوری قوم تباہ و برباد ہو گئی۔۔۔۔ لیکن ایک عذاب دنیا میں اس امت پر بھی آتا رہے گا۔۔۔۔ وہ عذاب آپس کا جنگ و جدل اور فرقوں اور پارٹیوں کا باہمی تصادم ہے۔۔۔۔
اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو فرقوں اور پارٹیوں میں منقسم ہو کر باہمی آویزش اور جنگ و جدل سے منع کرنے میں انتہائی تاکید سے کام لیا ہے اور ہر موقع پر اس سے ڈرایا ہے کہ تم پر خدا تعالیٰ کا عذاب اس دنیا میں اگر آئے گا تو آپس ہی کے جنگ و جدل کے ذریعہ آئے گا۔۔۔۔
سورہ ہود کی ایک آیت میں یہ مضمون اور بھی زیادہ وضاحت سے آیا ہے:۔
وَّلَایَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ (ھود:۱۱۸)
ترجمہ: ’’وہ تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے سوائے ان کے جن پر آپ کا رب رحم فرمائے۔۔۔۔‘۔‘۔
اس سے واضح ہوا کہ جو لوگ آپس میں (بلاوجہ شرعی) اختلاف کرتے ہیں، وہ رحمتِ خداوندی سے محروم یا بعید ہیں۔۔۔۔ایک آیت میں ارشاد ہے:۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمران: ۱۰۳)
ترجمہ: ’’اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔۔۔۔‘‘۔
دوسری آیت میں ارشاد ہے:۔
وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ م بَعْدِ مَاجَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ (اٰل عمران:۱۰۵)
ترجمہ: ’’اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا۔۔۔۔‘۔‘
ان تمام آیات و روایات کا حاصل یہ ہے کہ اختلاف بڑی منحوس اور مذموم چیز
ہے۔۔۔۔ آج دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے مسلمانوں کی پستی اور بربادی کے اسباب پر غور کیا جائے تو اکثر مصائب کا سبب یہی آپس کا اختلاف اور تشتت نظر آئے گا۔۔۔۔ ہماری بداعمالیوں کے نتیجہ میں یہ عذاب ہم پر مسلط ہو گیا کہ وہ قوم جس کا مرکز اتحاد ایک کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) تھا۔۔۔۔ اس کلمہ کو ماننے والا زمین کے کسی خطہ میں ہو…، کسی زبان کا بولنے والا ہو…، کسی رنگ کا ہو…، کسی نسل و نسب سے متعلق ہو… سب بھائی بھائی تھے، کوہ و دریا کی دشوار گزار منازل ان کی وحدت میں حائل نہ تھیں۔۔۔۔ نسب و خاندان، رنگ و زبان کا تفاوت ان کی راہ میں رکاوٹ نہ تھا۔۔۔۔ ان کی قومی وحدت صرف اس کلمہ سے وابستہ تھی۔۔۔۔ عربی…، مصری…، شامی…، ترکی…، ہندی…، چینی… کی تقسیمیں صرف شناخت اور تعارف کے لیے تھیں اور کچھ نہیں۔۔۔۔ بقول اقبال مرحوم:۔
درویش خدامست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر اس کا نہ دلّی نہ صفاہان نہ سمر قند
آج دوسری قوموں کی دسیسہ کاریوں اور مسلسل کوششوں نے پھر ان کو نسلی اور لسانی اور وطنی قومیتوں میں بانٹ دیا اور پھر ان میں سے بھی ہر ایک قوم و جماعت اپنے اندر کی بھی تشتت اور انتشار کا شکار ہو کر مختلف پارٹیوں میں بٹ گئی۔۔۔۔
وہ قوم جس کا شعار غیروں سے بھی عفوو درگزر اور ایثار تھا اور جھگڑے سے بچنے کے لیے اپنے بڑے سے بڑے حق کو چھوڑ دیتی تھی۔۔۔۔ آج اس کے بہت سے افراد ذرا ذرا سی حقیر و ذلیل خواہشات کے پیچھے بڑے سے بڑے تعلق کو قربان کر دیتے ہیں۔۔۔۔ یہی وہ اغراض و اہواء کا اختلاف ہے، جو قوم و ملت کے لیے منحوس اور اس دنیا میں نقد عذاب ہے۔۔۔۔
ہاں اس جگہ یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ وہ اختلاف جس کو قرآن میں عذاب الٰہی اور رحمت خداوندی سے محرومی فرمایا گیا ہے، وہ اختلاف ہے جو اصول اور عقائد میں ہو یا نفسانی اغراض و اہواء کی وجہ سے ہو۔۔۔۔ اس میں وہ اختلاف رائے داخل نہیں جو قرآن و سنت کے بتلائے ہوئے اصولِ اجتہاد کے ماتحت فروعی مسائل میں فقہاء امت کے اندر قرنِ اوّل سے صحابہ و تابعین میں ہوتا چلا آیا ہے۔۔۔۔ جن میں فریقین کی حجت قرآن و سنت اور اجماع سے ہے اور ہر ایک کی نیت قرآن و سنت کے احکام کی تعمیل ہے۔۔۔۔ مگر قرآن و سنت کے مجمل یا مبہم الفاظ کی تعبیر اور ان سے جزوی فروعی مسائل کے استخراج میں اجتہاد اور رائے کا اختلاف ہے۔۔۔۔ ایسے ہی اختلاف کو ایک حدیث میں رحمت فرمایا گیا ہے۔۔۔۔
جامع صغیر میں بحوالہ نصر مقدسی و بیہقی و امام الحرمین یہ روایت نقل کی ہے کہ:۔
۔’’اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ۔۔۔۔‘‘ (جامع الصغیر)
ترجمہ: ’’میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔۔۔۔‘‘۔
اُمت محمدیہ کی خصوصیت اس لیے اختیار فرمائی گئی کہ اس امت کے علماء حق اور فقہاء متقین میں جو اختلاف ہو گا وہ ہمیشہ اصولِ قرآن و سنت کے ماتحت ہو گا اور صدقِ نیت اور للہیت سے ہو گا، کوئی نفسانی غرض جاہ و مال کی ان کے اختلاف کی محرک نہ ہو گی۔۔۔۔ اس لیے وہ کسی جنگ و جدل کا سبب بھی نہ بنے گا۔۔۔۔ بلکہ علامہ عبدالرئوف مناوی شارح جامع صغیر کی تحقیق کے مطابق فقہاء امت کے مختلف مسالک کا وہ درجہ ہو گا، جو زمانہ سابق میں انبیاء علیہم السلام کی مختلف شرائع کا تھا کہ مختلف ہونے کے باوجود سب کی سب اللہ ہی کے احکام تھے۔۔۔۔ اسی طرح مجتہدین امت کے مختلف مسلک اصولِ قرآن و سنت کے ماتحت ہونے کی وجہ سے سب کے سب احکام خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کہلائیں گے۔۔۔۔ (معارف القرآن بحوالہ تحفۃ الائمۃ )
