اَسلاف پر اعتماد کی ضرورت
فرمایا: پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ میری اُمت میں تہتر فرقے ہوں گے، بہتر جہنمی اور ایک جنتی۔ پوچھا گیا تو فرمایا اہلسنّت والجماعت۔ جو بھی فرقہ اہلسنّت والجماعت کے مقابلے میں کھڑا ہوگا وہ بہتر میں سے ہوگا۔
یہ دور دجالی ہے اور دجال کا اثر اس لیے ہوگا کہ خود رائی کا مرض پیدا ہوگیا ہے۔ سلف صالحین کی تقلید سے لوگ کٹ جائیں گے۔
دیوبندی اور بریلوی میں اختلاف فروعی ہے جب کہ غیرمقلدین سے اُصولی اختلاف ہے جیسے گھر میں بھائی کا بھائی کے ساتھ جھگڑا اور انداز کا ہوگا اور غیر سے معاملہ اور انداز کا۔ بریلوی حضرات صلوٰۃ و سلام کو ضروری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پڑھنا منع نہیں ہے جبکہ دیوبندی کہتے ہیں کہ فرض نہیں۔
اب بریلوی اس کو اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ دیوبندی انکار کرتے ہیں جب یہ انکار کرتے ہیں تو بریلوی اس کا اثبات ضروری سمجھتے ہیں۔
اکبر دور میں مسلمانوں کو گائے کے ذبح کرنے سے منع کردیا گیا تھا تو حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے چوک میں کھڑے ہوکر فرمایا کہ گائے کا ذبح فرض و واجب نہیں چونکہ مسلمانوں کی حلال چیز کو حرام کیا جارہا ہے، اس لیے اب اس کا ذبح کرنا فرض ہے اور انہوں نے گائے کو وہیں ذبح کیا۔
اسی طرح بریلوی اپنے اس عمل کو کرنا ضروری اور دوسرے اس کے ترک کو ضروری سمجھتے ہیں یا یہ بات یوں بھی کی جاسکتی تھی کہ اگر بریلوی کہتے کہ دیوبندی اس کو منع کرتے ہیں جب کہ یہ جائز ہے تو پھر دیوبندی کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ دیوبندی و بریلوی میں اختلافات مصنوعی ہیں اور حُب جاہ اور حُب مال کی وجہ سے اختلاف ہوا۔ مسلک، کتب، مذہب ایک ہی ہے صرف تعبیر میں اختلاف ہے۔
بھائیو! صحیح جواب یہ ہے کہ جب کرنا منع نہیں یعنی جو کررہا ہے اسے کرنے دیں اور جو نہیں کررہا اسے کرنے کے لیے نہ کہیں، کرنا بدعت نہیں اور نہ کرنا بھی بدعت نہیں بلکہ اس مسئلے پر اُلجھنا بدعت ہے۔ اس جھگڑے کو انگریز نے پیدا کیا، دونوں طرف اپنے بندے کھڑے کیے حالانکہ علمی حوالے سے کوئی معاملہ نہیں۔ اس بارے میں ہفت مسئلہ از حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ پڑھنا فائدہ مند ہے ان شاء اللہ۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ دیوبندی اور بریلوی میں حق دیوبندیوں کی طرف ہے کیونکہ نزاع بریلویوں نے پیدا کیا ہے اور یہ (دیوبندی) جواب دیتے ہیں۔ 
انگریز کی چال تھی جس کے ایجنٹ (غیرمقلدین) ہیں، تمام احادیث کے ذخیرہ میں کہیں نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو کہ قرآن و حدیث کی پیروی کرو۔ لوگو! ہم مکلف قرآن و سنت کے ہیں۔ حدیث اس کو کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عمل چاہے کسی خاص مصلحت کے تحت ہو وہ لکھا جائے گا جب کہ سنت کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا متواتر طریقہ جس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آگے چلایا ہو جیسے حدیث میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا ذکر ہے لیکن جو چیز تواتر (یعنی سنت) سے ثابت ہے وہ بیٹھ کر ہے۔(مجالس ناصریہ، ص:۷۳)
