اَسلاف و اکابر کے مسلک کی وضاحت
شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہم العالی حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کی تالیف ’’علمائے دیوبند کا دینی رُخ اور مسلکی مزاج‘‘ کے پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
علماء دیوبندکے مسلک کی تشریح وتوضیح کیلئے اصلاًکسی الگ کتاب کی تالیف کی چنداں ضرورت نہیں تھی اس لیے کہ ’’علماء دیوبند‘‘کوئی ایسافرقہ یاجماعت نہیں ہے جس نے جمہورامت سے ہٹ کرفکروعمل کی کوئی الگ راہ نکالی ہوبلکہ اسلام کی تشریح وتعبیرکیلئے چودہ سوسال میں جمہورعلماء ِامت کاجومسلک رہاہے وہی علمائے دیوبندکامسلک ہے ،دین اوراسکی تعلیمات کابنیادی سرچشمہ قرآن وسنت کی تمام تعلیمات اپنی جامع شکل وصورت میں علماء دیوبندکے مسلک کی بنیادہیں۔
اہلِ سنت والجماعت کے عقائدکی کوئی بھی مستندکتاب اٹھاکردیکھ لیجئے اس میں جوکچھ لکھاہوگاوہی علماء دیوبندکے عقائدہیں حنفی فقہ اوراصولِ فقہ کی کسی بھی مستندکتاب کامطالعہ کرلیجئے اس میں جوفقہی مسائل واصول درج ہوں گے وہی علمائے دیوبندکافقہی مسلک ہیں ۔اخلاق واحسان کی کسی بھی مستنداورمسلم کتاب کی مراجعت کرلیجئے وہی تصوف اورتزکیہ ٔ اخلاق کے باب میں علمائے دیوبندکاماخذہے ۔
انبیاء کرام اورصحابہ ؓوتابعین ؒ سے لے کراولیاء امت اوربزرگان ِ دین تک جن جن شخصیتوں کی جلالتِ شان اورعلمی وعملی قدرومنزلت پرجمہورامت کااتفاق رہاہے وہی شخصیتیں علمائے دیوبندکیلئے مثالی اورقابلِ تقلیدشخصیتیں ہیں ۔
غرض دین کاکوئی گوشہ ایسانہیں ہے جس میں علمائے دیوبنداسلام کی معروف ومتوارث تعبیراوراسکے ٹھیٹھ مزاج ومذاق سے سرمواختلاف رکھتے ہوں ،اس لئے انکے مسلک کی تشریح وتوضیح کیلئے کسی الگ کتاب کی چنداں ضرورت نہیں ان کامسلک معلوم کرناہوتووہ تفصیل کے ساتھ تفسیرقرآن کی مستندکتابوں ،مسلم شروح ِ حدیث ،فقہ حنفی ،عقائدوکلام اورتصوف واخلاق کی ان کتابوں میں درج ہے جوجمہورعلماء امت کے نزدیک مستنداورمعتبرہیں لیکن اس آخری دورمیں دواسباب ایسے پیش آئے جن کی وجہ سے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ علمائے دیوبندکے مسلک ومشرب اوردینی مزاج ومذاق کوایک مستقل تالیف کی صورت میں واضح کیاجائے ۔
پہلاسبب یہ تھاکہ اسلام اعتدال کادین ہے ،قرآن کریم نے امتِ مسلمہ کو’’اُمۃ وسطاً‘‘کہہ کراس بات کااعلان فرمادیاہے کہ اس امت کی ایک بنیادی خصوصیت توسط اوراعتدال ہے اورعلمائے دیوبندچونکہ اس دین کے حامل ہیں اس لئے ان کے مسلک ومشرب اورمزاج ومذاق میں طبعی طورپریہی اعتدال پوری طرح سرایت کئے ہوئے ہے ان کی راہ افراط اورتفریط کے درمیان سے اس طرح گزرتی ہے کہ انکادامن ان دوانتہائی سروں میں سے کسی سے بھی نہیں الجھتا،اوریہ اعتدال کی خاصیت ہے کہ افراط اورتفریط دونوں ہی اس سے شاکی رہتے ہیں افراط اس پرتفریط کاالزام عائدکرتاہے اورتفریط اس پرافراط کی تہمت لگاتی ہے ۔
اس وجہ سے علمائے دیوبندکے خلاف بھی انتہاپسندانہ نظریات کی طرف سے متضادقسم کاپروپیگنڈہ کیاگیاہے مثلاًعلمائے دیوبندکااعتدال یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت پرایمانِ کامل کے علاوہ سلفِ صالحین پراعتماداورانکی پیروی کوبھی ساتھ لے کرچلتے ہیں انکے نزدیک قرآن وسنت کی تشریح وتعبیرمیں سلفِ صالحین کے بیانات اورانکے تعامل کومرکزی اہمیت بھی حاصل ہے اوروہ ان کے ساتھ عقیدت ومحبت کوبھی اپنے مسلک ومشرب کااہم حصہ قراردیتے ہیں لیکن دوسری طرف اس عقیدت ومحبت کوعبادت اورشخصیت پرستی کی حدتک بھی نہیں پہنچنے دیتے بلکہ فرقِ مراتب کااصول ہمیشہ انکے پیشِ نظررہتاہے ۔
اب جوحضرات قرآن وسنت پرایمان اورعمل کے تومدعی ہیں لیکن انکی تشریح وتعبیرمیں سلفِ صالحین کوکوئی مرکزی مقام دینے کیلئے تیارنہیں بلکہ خوداپنی عقل وفکرکوقرآن وسنت کی تعبیرکے لئے کافی سمجھتے ہیں وہ حضرات علمائے دیوبندپرشخصیت پرستی کاالزام عائدکرتے ہیں اوریہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ انھوں نے (معاذاللہ) اپنے اسلاف کومعبودبنارکھاہے ۔
اوردوسری طرف جوحضرات اسلاف کی محبت وعقیدت کوواقعۃ ًشخصیت پرستی کی حدتک لے گئے ہیں وہ حضرات علمائے دیوبندپریہ تہمت لگاتے رہے ہیں کہ انکے دلوں میں اسلاف کی محبت وعظمت نہیں ہے یاوہ اسلام کی ان مقتدرشخصیتوں کے بارے میں (معاذاللہ) گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔
ان دونوں قسم کے متضادپروپیگنڈے کے نتیجے میں ایساشخص جوحقیقتِ حال سے پوری طرح باخبرنہ ہوعلمائے دیوبندکے مسلک ومشرب کے بارے میں غلط فہمیوں کاشکارہوسکتاہے اس لئے کچھ عرصے سے یہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ علمائے دیوبندکے مسلک ِ اعتدال کومثبت اورجامع اندازمیں اس طرح بیان کردیاجائے کہ ایک غیرجانبدارشخص ان کے موقف کوٹھیک ٹھیک سمجھ سکے ۔
دوسراسبب یہ پیش آیاکہ’’ مسلکِ علمائے دیوبند‘‘درحقیقت فکروعمل کے اس طریقے کانام تھاجودارالعلوم دیوبندکے بانیوں اوراسکے مستنداکابرنے اپنے مشائخ سے سندِ متصل کیساتھ حاصل کیاتھااورجس کاسلسلہ حضرات صحابہ ؓ اورتابعینؒ سے ہوتاہواسرکارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے جڑاہواہے یہ فکرواعتقادکاایک مستندطرزتھایہ اعمال واخلاق کاایک مثالی نظام تھا،یہ ایک معتدل مزاج ومذاق تھاجوصرف کتاب پڑھنے یاسندحاصل کرنے سے نہیں بلکہ اس مزاج میںرنگے ہوئے حضرات کی صحبت سے ٹھیک اسی طرح حاصل ہوسکتاہے جس طرح صحابہ ؓنے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ،تابعین رحمہم اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے اورانکے مستندشاگردوں نے تابعین رحمہم اللہ سے حاصل کیاتھا۔
دوسری طرف دارالعلوم دیوبندجس کی طرف عموماًاس مسلک کی نسبت کی جاتی ہے ایک ایسی درس گاہ ہے جوایک صدی سے زیادہ مدت سے اسلامی علوم کی تعلیم کی خدمت انجام دے رہی ہے ۔
اس دوراناس سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی تعدادعجب نہیں کہ لاکھوں میں ہواسکے علاوہ بعدمیں برصغیرکے اندرہزارہاایسے دینی مدارس قائم ہوئے جوسب اپناسرچشمہ ٔفیض دارالعلوم دیوبندکوقراردے کراس سے اپنے آپ کومنسوب کرتے ہیں اورانکے فضلاء کوبھی عرفِ عام میں’’علمائے دیوبند‘‘ہی کہاجاتاہے ۔
اب ظاہرہے کہ ان درسگاہوں سے لاکھوںکی تعدادمیں فارغ التحصیل ہونے والوں میں سے ہرفردکے بارے میں یہ نہیں کہاجاسکتاکہ وہ ’’مسلک ِ علماء دیوبند‘‘کاصحیح ترجمان ہے ،کوئی بھی باقاعدہ درس گاہ جوکسی خاص نصاب نظام یانظم وضبط کی پابندہووہ اپنے زیرتعلیم افرادکی خدمت اسی حدتک انجام دے سکتی ہے اورانکی نگرانی اسی حدتک کرسکتی ہے جس حدتک اسکے لگے بندھے قواعدوضوابط اجازت دیں لیکن وہ ایک ایک طالب علم کے بارے میں اس بات کی مکمل نگرانی نہیں کرسکتی کہ تنہائی میں اسکے دل ودماغ میں کیاخیالات پرورش پارہے ہیں اوروہ کن خطوط پرآگے بڑھنے کوسوچ رہاہے ؟بالخصوص درسگاہ سے ضابطے کاتعلق ختم ہونے کے بعدتواس قسم کی نگرانی کاکوئی امکان ہی نہیں رہتا۔
چنانچہ ان درسگاہوں سے کچھ ایسے حضرات بھی نکل کرمیدانِ عمل میں آئے ہیں جو تعلیمی حیثیت سے بلاشبہ دارالعلوم دیوبند کی طرف منسوب ہیں لیکن انہیں اکابر علمائے دیوبند کا مسلک اشرب یا ان کا وہ متوارث مزاج و مذاق جو صرف کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا، ٹھیک ٹھیک حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا، اس لحاظ سے وہ مسلک علمائے دیوبند کے ترجمان نہیں تھے، لیکن تعلیمی طور پر دارالعلوم دیوبند یا اس کی فیض یافتہ کسی اور درس گاہ سے منسوب ہونے کی بنا پر بعض لوگوں نے انہیں مسلک علمائے دیوبند کا ترجمان سمجھ لیا اور ان کی ہر بات کو بھی علمائے دیوبند کی طرف منسوب کرنا شروع کردیا۔
ان میں سے بعض حضرات ایسے بھی تھے جو علمائے دیوبند کے بعض عقائد و افکار کی نہ صرف تردید و مخالفت کرتے رہے بلکہ ان کو گمراہی تک قرار دیا اور اس کے باوجود اپنے آپ کو مسلک علمائے دیوبند کا ترجمان بھی کہتے رہے۔ بعض حضرات نے اپنے ذاتی افکار کو علمائے دیوبند کی طرف منسوب کرنا شروع کردیا۔ بعض حضرات نے مسلک علمائے دیوبند کے جامع اور معتدل ڈھانچے سے صرف کسی ایک جزو کو لے کر بس اسی جزو کو ’’دیوبندیت‘‘ کے نام سے متعارف کرایا اور اس کے دوسرے پہلوؤں کو نظرانداز کردیا۔
مثلاً بعض حضرات نے یہ دیکھ کر کہ حضرات اکابر علمائے دیوبند نے ضرورت کے وقت ہر باطل نظریے کی مدلل تردید کرکے اپنا فریضہ ادا فرمایا ہے۔
بس اسی تردید کو علمائے دیوبند کا مسلک قرار دے لیا اور اپنے عمل سے تاثر یہ دیا کہ مسلک علمائے دیوبند صرف ایک منفی تحریک کا نام ہے جس کے نصب العین میں دین کے مثبت پہلو کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ پھر باطل نظریات کی تردید میں بھی مختلف نظریات نے مختلف میدانِ عمل طے کرلیے جو تقسیم کار کی حد تک درست ہوسکتے تھے لیکن بعض حضرات نے ان میں مبالغہ کرکے مسلک علمائے دیوبند کے صرف اپنے میدانِ عمل کی حد تک محدود ہونے کا تاثر دیا۔
بعض حضرات نے باطل کی تردید کے اُصول کو تو اختیار کرلیا لیکن تردید کے طریقے میں اکابر علمائے دیوبند نے جن اُصولوں کی پیروی فرمائی تھی ان کی طرف کماحقہ، التفات نہیں کیا اور بعض حضرات کے طرزِ عمل سے کچھ ایسا تاثر قائم ہوا کہ مسلک علمائے دیوبند بھی (خدانخواستہ) ان ہی دھڑے بندیوں کا ایک حصہ ہے جو دُنیا میں پھیلتی نظر آتی ہیں اور جن کا مسلک یہ ہے کہ اپنے دھڑے کے آدمی کی ہر خطا بھی معاف اور قابل دفاع ہے اور باہر کے آدمی کی ہر نیکی بھی دریا برد کرنے کے لائق ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ’’مسلک علمائے دیوبند‘‘ ان تمام بے اعتدالیوں سے بری ہے اور یہ ایسے حضرات کی طرف سے منظرعام پر آئی ہیں جو ضابطے کی تعلیم کے لحاظ سے وابستہ رہے ہوں لیکن مسلک و مشرب اور مزاج و مذاق میں اکابر علمائے دیوبند کے ترجمان نہیں تھے اور نہ انہوں نے یہ مزاج و مذاق اس متوارث طریقے پر حاصل کیا تھا جو اس کے حصول کا صحیح طریقہ ہے۔
اگرچہ دارالعلوم دیوبند کے قیام سے لے کر آج تک کی تاریخ سامنے ہو تو اس قسم کی بے اعتدالیوں کی مقدار کچھ زیادہ نہیں تھی لیکن اکابر علماء کے رُخصت ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور ناواقف لوگ ان کو مسلک علمائے دیوبند سے منسوب کرنے لگے۔
اس لیے بھی اس بات کی ضرورت محسوس کی جانے لگی کہ علمائے دیوبند کے مسلک و مشرب اور مزاج و مذاق کی تشریح کرکے اسے ایسے جامع انداز میں مرتب و مدون کردیا جائے جس کے بعد کوئی التباس و اشتباہ پیدا نہ ہو۔
اس ترتیب و تدوین کے لیے اس آخری دور میں بلاشبہ کوئی شخصیت حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قدس سرہ کی شخصیت سے زیادہ موزوں نہیں ہوسکتی تھی۔ حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف نصف صدی سے زیادہ مدت تک دارالعلوم دیوبند کے مہتمم رہے ہیں بلکہ انہوں نے براہِ راست ان اکابر علمائے دیوبند سے اکتساب فیض فرمایا ہے جو بلااختلاف، مسلک علمائے دیوبند کے حقیقی ترجمان تھے۔ انہوں نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن صاحب رحمہ اللہ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ، امام العصر حضرت  علامہ سید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ اور مفتی اعظم مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ جیسے اساطین سے صرف ضابطے کے تلمذ کا شرف حاصل نہیں کیا بلکہ مدتوں ان کی خدمت و صحبت سے فیض یاب ہوکر ان کے مزاج و مذاق کی خوشبو کو اپنے قلب و ذہن میں بسایا تھا، کسی سیاسی اور انتظامی مسئلے میں کسی کو حضرت رحمہ اللہ سے خواہ کتنا اختلافِ رائے رہا ہو لیکن اس بات میں دو رائیں ممکن نہیں کہ اس آخری دور میں وہ مسلکِ علمائے دیوبند کے مستند ترین شارح تھے۔
چنانچہ مذکورہ دو اسباب کے تحت جب کبھی مسلک علمائے دیوبند کی تشریح و تفصیل کی ضرورت محسوس ہوئی، نگاہیں حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ ہی کی طرف اُٹھیں اور وقت کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے حضرت رحمہ اللہ نے اس موضوع پر کئی تحریریں قلمبند یا شائع فرمائیں جن میں اب تک کی سب سے مفصل تحریر وہ سمجھی جاتی ہے جو ’’مسلک علمائے دیوبند‘‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔
لیکن جیساکہ حضرت رحمہ اللہ نے خود زیرنظر کتابچے کے مقدمے میں تحریر فرمایا ہے، یہ تمام تحریریں کسی اور موضوع کا ضمنی حصہ بناکر لکھی تھیں جن کا براہِ راست موضوع ’’مسلک علمائے دیوبند‘‘ کی مفصل توضیح نہیں تھا اور ظاہر ہے کہ کسی موضوع کے ضمنی تذکرے میں وہ وضاحت ممکن نہیں جو اسے براہِ راست مقصود بناکر لکھنے کی صورت میں ہوسکتی ہے۔
چنانچہ حضرت قاری صاحب قدس سرہ نے اس ضرورت کو محسوس فرماتے ہوئے اپنے آخری ایام حیات میں مفصل کتاب ’’علمائے دیوبند کا دینی رُخ اور مسلکی مزاج‘‘ تالیف فرمائی ۔(ماخوذ از پیش لفظ علمائے دیوبند کا دینی رُخ اور مسلکی مزاج)
