اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی
چنانچہ سلف سے لے کر خلف تک اختلافی مسائل میں ایسے ہی جامع افراد کی تقلیدِ معین بطور دستور العمل کے شائع ذائع رہی ہے اور قرنِ صحابہ ہی سے اس کا وجود شروع ہوگیا تھا۔ مثلاً حدیث حذیفہ میں جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ارشادِ نبوی ہے:
انی لاادری ماقدر بقائی فیکم فاقتدوا باللذین من بعدی واشار الٰی ابوبکر و عمر۔
ترجمہ: مجھے نہیں معلوم کہ میں تم لوگوں میں کب تک زندہ رہوں گا سو تم لوگ ان دونوں کا اقتداء کیا کرنا اور اشارہ سے ابوبکر و عمر کوبتلایا۔
ظاہر ہے کہ من بعدی سے ان دونوں حضرات کی حالت خلافت مراد ہے۔ کیونکہ بلا خلافت تو ہر دو حضرات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے بھی موجود تھے۔ مطلب یہ ہوا کہ ان کے خلیفہ ہونے کی حالت میں ان کااتباع کرنا، اور ظاہر ہے کہ خلیفہ ایک ہی ایک ہوں گے نہ کہ دونوں اکٹھے۔
اس لئے حاصل یہ ہوا کہ صدیق اکبر کی خلافت میں ان کا اور خلافتِ فاروقی میں ان کا اتباع کرنا۔ پس حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک خاص زمانہ تک ایک معین شخص کے اتباع کا دین میں حکم فرمایا اور کہیں نہیں فرمایا کہ ان سے دلیل بھی ہر مسئلہ کی تحقیق کرنا اور نہ یہ عادتِ مستمرہ تھی یہی تقلید شخصی ہے کہ عملی مسئلہ پیش آنے پر کسی ایک عالم سے رجوع کرکے اس کے فتویٰ پر عمل کیا جائے۔ لیکن دلائل کے پوچھنے کا کوئی التزام نہ تھا، چنانچہ لوگوں کے سوال کرنے پر ان کے جو فتاویٰ روایات میں مذکور ہیں ان میں نہ دلیل کا سوال نہ دلیل کا اظہار یہی تقلید شخصی تھی، کہ ایک پورا ملک جمع ہوگیا اور بلا استفسار دلیل کے اس کے فتاویٰ پر عمل کرنے لگا۔
بخاری کی روایت میں ہے کہ لوگوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مسئلہ پوچھا۔ پھر وہی مسئلہ حضرت ابن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے ابو موسیٰ کے خلاف بتلایا، جب ابوموسیٰ کو اطلاع ہوئی تو فرمایا کہ جب تک یہ حبر تم میں موجود ہے مجھ سے مسئلہ مت پوچھا کرو۔
ظاہر ہے کہ لوگوں کو تمام مسائل میں ایک طرف لگادینا اور لوگوںکا اس پر عمل درآمد کرنا جس میں مطالبۂ دلیل کا کوئی سوال نہیں، یہی تقلید شخصی ہے۔
اہل مدینہ عموماً حضرت زید بن ثابت کے فتاویٰ پر عمل کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عکرمہ کی روایت بخاری میں ہے کہ لوگوں نے حضرت ابن عباس سے کہا کہ ہم زید بن ثابت کے قول کے خلاف آپ کے قول پر عمل نہیں کریں گے۔ جس سے ظاہر ہے کہ اہل مدینہ کے امام و مفتی حضرت زید بن ثابت تھے اور لوگ ان کے فرمودہ کے مطابق عمل کرتے تھے خواہ وہ نص سے حکم دیں یا عدم نص کی صورت میں قیاس سے۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قرآن کے سبعۃ احرف کو صرف واحد پر مقتصر فرمادینا اور تمام محروسہ ہائے اسلامی میں صحابہ و تابعین کا اسی کو عملاً قبول کرلینا اتباع و تقلید معین نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ کیونکہ اس کے بارہ میں کوئی صریح حکم حدیث میں موجود نہیں تھا۔ ایک علت پر جس کو حضرت ذوالنورین کے تفقہ نے ادراک کیا، یہ حکم دائر تھا جبکہ ان کے نزدیک اس علت کا زمانہ ختم ہوگیا تو وہ سبعۃ احرف بھی ختم ہوگیا۔ چنانچہ اس واقعہ کی روایت کے الفاظ پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے مگر اس قیاسی حکم کو سب نے قبول کرلیا اور کسی نے بھی مطالبۂ دلیل نہ کیا۔ اسی طرح اور قیاسی احکام میں بھی قرنِ صحابہ میں تقلیدِ شخصی کی گئی ہے۔
بہرحال تقلیدِ شخصی کا عمل قرنِ سلف میں رائج تھا، آج چونکہ اس کے بغیر لوگ طرح طرح کے علمی اور عملی مفاسد کا شکار ہیںجن کی تشریح ابھی عرض کی گئی کہ اجتہاد کی آزادی سے فتنۂ شبہات پھیلتا ہے اور تقلید کی آزادی سے فتنۂ شہوات بڑھتا ہے، اس لئے قدرتاً اس میں وجوب کی شان پیدا ہوگئی کہ وہ واجب کا مقدمہ بن گئی ہے اور اس کے بغیر اتباع ہویٰ سے محفوظ رہنا عادۃً محال ہوگیا ہے اس لئے تقلید شخصی بھی ضروری اور واجب ہوگئی ہے مگر واجب بالغیر۔ قرون اولیٰ میں یہ غیر یعنی فتنۂ شبہات و شہوات شائع نہ تھا اس لئے یہ تقلید معین جواز کے درجہ میں تھی۔ آج شائع ہے اس لئے وجوب کے درجہ میں ہے۔
الحاصل مطلق تقلید اور تقلیدِ معین کتاب و سنت کی روشنی میں ایک ثابت شدہ اور معمول بہ مسئلہ واضح ہوئی۔ مطلق تقلید تو بنص قرآنی:۔
فاسئلوآ اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون
ترجمہ: علم والوں سے سوال کرو اگر تم علم نہیں رکھتے۔
اور تقلید معین بوجہ مفاسد مذکورہ اصول کتاب و سنت، احادیث باب، تعامل سلف، اجماع امت اور نبض شناساں امت مرحومہ کے تجربات وغیرہ سے واجب
