اَسلاف سے وابستگی اور اعتماد
شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم فرماتے ہیں:۔
آپ جس زمانے میں ہیں یہ بڑا پرآشوب اور فتنے سے بھرا پڑا ہے‘ فتنے ہر دور میں آئے۔۔ کوئی دور فتنوں سے خالی نہ رہا ‘ لیکن مجھے ایسے لگتا ہے کہ جو حدیثیں آپ نے پڑھی ہیں ’’فتن کفتن اللیل المظلم‘‘ایسے فتنے آئیں گے جو اندھیری رات کی طرف اندھیروں والے ہوں گے وہ زمانہ یہی ہے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں۔۔ اس میں چاروں طرف فتنوں کا بازار گرم ہے۔۔ فتنے منڈلا رہے ہیں۔۔
’’فتن فوقع فی ب•یوتکم کوقع المطر‘‘اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیت ہے۔۔ کسی دور میں کیسے فتنے آتے ہیں‘ کسی دور میں کیسے آتے ہیں؟ ہمارے دور کے فتنے نظریاتی فتنے ‘ عقائد کے فتنے‘ اعمال کے فتنے ہیں اور نہ جانے کس کس قسم کے روپ میں فتنے ہمارے چاروں طرف منڈلا رہے ہیں۔۔ ایسے وقت میں آپ لوگ میدان عمل میں اتر رہے ہیں اور فتنے ایسے بھی ہیں جیسا حدیث میں فرمایا یا:
’’دعاۃ علی أبواب جھنم‘‘جہنم کے دروازوں کی طرف دعوت دینے والے کھڑے ہیں اور پھر یہ بھی آپ نے پڑھا ہے کہ دجل و فریب کا بازار گرم ہوگا اور آدمی پر حق واضح نہ ہو پائے گا۔۔ یہ سارے کے سارے حالات اس وقت درپیش ہیں اور اس وقت آپ لوگ میدان عمل میں اتر رہے ہیں۔۔
فتنوں کا زمانہ‘ اور بچائو کی ڈھال
ایسے حالات میں جب آدمی کام کرنے کے لیے نکلتا ہے تو اس کو بڑے دلکش قسم کے نعرے سنائی دیتے ہیں بہت سی صدائیں اس کو اپنی طرف بلا رہی ہوتی ہیں اور حالات ایسے ہوتے ہیں کہ آج کی دنیا میں ہم ایسے فتنوں کے محاصرے میں گھرے ہوئے ہیں کہ آدمی کو پتا نہیں چلتا کہ وہ کس طرف جا رہا ہے اور کس حرکت کی ڈور کہاں سے ہل رہی ہے؟ کون سے کام کی اصل بنیاد کیا ہے؟ کھڑے کھڑے آٓدمی بک جاتا ہے اور اسے پتا بھی نہیں چلتا‘ اس قسم کے ’’کقطع اللیل المظلم‘‘والے فتنوں میں ہم اس وقت گھر ے ہوئے ہیں اور جب آپ لوگ میدان عمل میں اتر رہے ہو تو سب نوجوان ہو‘ کچا پکا علم ہے‘ تجربہ ناپید ہے‘ ناتجربہ کار ہو اور اپنے بزرگوں اور اکابر کے حالات سے پوری طرح باخبر نہیں‘ جن اکابر کے ہم نام لیوا ہیں حضرت نانوتوی‘ حضرت گنگوہی سے لے کر حضرت مدنی‘ حضرت علامہ عثمانی‘ حضرت مفتی محمدشفیع رحمہم اللہ تعالیٰ‘ ان کے پورے اور مکمل حالات سے‘ ان کے مزاج سے ‘ ان کے مذاق سے‘ ان کے طرزِ فکر سے پوری واقفیت نہیں‘ سمجھے بنا‘ کیا مطلب کہ اتر تو گئے میدانِ عمل میں‘ اور جو ہتھیار ساتھ ہونے چاہیے تھے‘ طرزِ فکر کی درستگی‘ خیالات کی درستگی‘ طرزِ عمل کا صحیح مزاج و مذاق‘ ابھی تک ان سے لیس نہیں ہیں۔۔ ایسے میں کسی بھی شخص کو کوئی بھی اُچک کر لے جا سکتا ہے‘ کوئی دلچسپ نعرے لگا دے اور وہ اس کے پیچھے چل پڑے تو نہ جانے اسے کہاں لے جا کر گرا دے۔۔ یہ ایسا وقت ہے جس میں اپنی حقیقت پہچاننے کی ضرورت ہے۔۔ فتنوں کی شدت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہماری نجات کا کوئی راستہ ہے اور صحیح طرزِ عمل ہے تو وہ یہ ہے کہ ہم جو کام بھی کریں اپنے اکابر کے سائے میں رہ کر کریں‘ اکابر کے مشوروں سے کریں‘ اکابر کی رہنمائی سے کریں۔۔ خود رائی سے جو راستے بھی اختیار کرو گے ایسے فتنوں کے دور میں تو نہ جانے ہلاکت کے کس غار میں لے جا کر تمہیں گرائے گا۔۔
