اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد
حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:۔
۔۔۔۔ساتھ ہی اس پر غور کیجئے کہ اس ہرجائی پن اور نقیضین میں دائر رہنے کی عادت کا طبعی اثر ایک دوسری نوعیت مفاسد کی یہ ہوگی کہ یہ شخص کئی کئی اماموں اور مفتیوں کی طرف رجوع کرتے رہنے کی حالت میں اپنے نفس کے لئے سہولتیں تلاش کرنے کا عادی ہوجائے گا کہ جدھر سہولت دیکھی ادھر ہی سے فتویٰ لے لیا اور اُدھر ہی کا مقلد بن گیا۔ اس صورت میں گویا یہ تقلید غیر معین غلبۂ ہوا و ہوس کے ماتحت اس کی مطلب برآری کا ایک آلہ اور حیلہ ہوگی وہ ان کئی ائمہ کے پردہ میں درحقیقت مقلد اپنے نفس کا ہوگا جس کے سامنے طاعتِ حق نہ ہوگی بلکہ صرف اپنی راحت و سہولت اور نفسانی شہوت ہوگی۔
مثلاً ایک شخص نے وضو کیا اور پھر خون نکلوایا جس سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے نزدیک وضو ٹوٹ گیا تو اس نے کہا کہ میں امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کا فتویٰ لیتا ہوں کہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس کے بعد عورت کو شہوت سے ہاتھ لگایا جس سے امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کے نزدیک وضو ٹوٹ جاتا ہے تو اسنے کہا کہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کا فتویٰ لیتا ہوں کہ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا اور بلا تجدید وضو نماز پڑھ لی، چونکہ اس شخص کا وضو بالاجماع ٹوٹ چکا ہے گو سبب مختلف ہوئے اس لئے اس کی نماز سب کے نزدیک باطل ہوئی۔ مگر یہ اپنے نزدیک پھر بھی اپنے کومتوضی اور مصلی سمجھ رہا ہے جس سے علاوہ فرق اجماع کے مفسدہ کے اس شخص کی اس ساری تحقیق اور تقلید کا حاصل حظِ نفس اور مطلب برآری کے سوا کچھ نہ نکلا۔ گویا اس کا دین اس کے ہوا کے تابع ہوگیا نہ کہ ہوا نفس دین کے تابع ہوئی۔ حالانکہ صریح ارشاد نبوی ہے۔ 
عن عبداﷲ بن عمر قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لا یؤمن احدکم حتی یکون ہواہ تبعًا لما جئت بہ۔ (مشکوٰۃ)
ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہیں بن سکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائے۔
پھر فروع میں اس قسم کی آزادی کا خوگر ہوجانے سے اصول میں بھی ایسی ہی آزادی کا آجانا غیر مستبعد نہیں رہتا بلکہ عادۃً ایسا ہورہا ہے۔ حالانکہ بنصِ حدیث شبہات میں پڑنے والا بالآخر حرام میں پڑ کر رہتا ہے۔
بہرحال ایسا مقلد عام جو بلا تعین مختلف ائمہ کی تقلید کا خوگر ہے وہ یقینا نقیضین میں دائر سائر رہے گا خواہ وہ تناقض جزئیاتی ہو یا کلیاتی، ساتھ ہی ان متخالف اجتہادات کے آثار سے اس کا روحانی مزاج بھی فاسد ہوئے بغیر نہ رہے گا۔
یا تو ہوائے نفس اس کے دین پر غالب آجائے گی یا وہ رضائے حق کا طالب نہ رہے گا، یا اجماع اُمت کا ربقہ گلے سے نکال پھینکے گا اور نتیجتاً فروعات کی آزادی اصول تک پہنچ جائے گی اور اصول کو بھی وہ حظِ نفس اور مطلب برآری ہی کا ذریعہ بنا کر بالآخر سرے سے دین ہی کو کھو بیٹھے گا۔
یہی وجہ ہے کہ روحانی تربیت اور نفسانی معالجہ کے سلسلہ میں جس کے اطباء انبیاء علیہم السلام ہیں ایک نبی کی شریعت پر عمل کرتے ہوئے دوسری شریعت اور نبی کو حق جاننے کے باوجود اس پر عمل کرنے کی خاص طور سے ممانعت فرمائی گئی ہے۔ ادب تو اتنا کہ نبی اور اس کی شریعت کے انکار پر پورا دین حبط، لیکن احتیاط اس پر یہ کہ اس سچے نبی کے ایک جزئیہ پر بھی بلا اجازت نبی ٔ زمان عمل ناجائز اور ممنوع جس کا راز یہی ہے کہ ہر شریعت کی تربیت کا رنگ جدا جدا ہے، نفس میں اسکے متضاد آثار پیوست ہونے سے اس نفس کی ہلاکت ہے نہ کہ تقویت۔ چنانچہ جب حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے یہ خیال ظاہر کیا کہ یہود کی بعض باتیں ہمیں بڑی اچھی معلوم ہوتی ہیں اگر اجازت ہو تو لکھ لیا کریں تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
اتہو کون انتم کما تہوکت الیہود والنصاریٰ لقد جئتکم بہا بیضاء نقیۃ ولوکان موسٰی حیا ما وسعہ الا اتباعی۔
(رواہ احمد والبیہقی فی شعب الایمان)
ترجمہ: کیا تم اپنے احکام دین کے بارہ میں ابھی تک حیرت میں پڑے ہو جیسا کہ یہودونصاریٰ حیرت میں پڑے ہوئے ہیں؟ بلاشک میں تمہارے پاس ایک صاف اور روشن شریعت لے کر آیا ہوں اور اگر موسیٰ بھی آج زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے سوا چارۂ کار نہ تھا۔
اس اُصول پر مربیان باطن حضرات صوفیائے کرام قدس اﷲ اسرارہم نے اپنے طریق تربیت کی بنیاد توحید مطلب پر رکھی ہے جس کا حاصل یہی ہے کہ ایک شیخ سے وابستہ ہوکر دوسرے کی طرف عملی رجوع کرنا باعث تباہی ٔ نفس ہے۔ ادب و تعظیم بلا استثناء سب کاضروری لیکن اتباع صرف ایک کا، ہر مربیٔ باطن کا رنگ فطرت ہی الگ ہے اس سے پیداشدہ اُصولی تربیت کا رنگ بھی جدا جدا ہے اور اسی رنگ کے مطابق پروردوں کے نفوس پر احوال و کیفیات بھی اسی رنگ کے طاری ہونے ضروری ہیں۔
پس اگر توحید مطلب باقی نہ رہے، بلکہ طالب و سالک اپنے تلون کے تحت مختلف مشائخ میں دائر سائر پھرتا رہے تو اس میں یکسوئی، یک رنگی اور دلجمعی کی دولت کبھی پیدا نہیں ہوسکتی جو تمام کمالاتِ باطن کی اساس ہے اور اس لئے اسے تمام عمر کبھی بشاشت و تمکین میسر نہیں آسکتی جس کے لئے ساری ریاضتیں کی جاتی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ نبوت ہو یا طریق ولایت دونوں میں توحید مطلب کے بغیر تربیت کا کام نہیں چل سکتا۔ پھر اسی طریق کی روشنی میں اطبائے جسمانی کو بھی یہی توحید مطلب بنام توحید مطب اختیار کرنی پڑی کہ اس کے بغیر مریض کی صحت ہی متوقع نہیں ہوسکتی۔
پس جو انتظام انبیاء علیہم السلام نے اپنی شان تربیت کو موثر بنانے کے لئے کیا، اولیاء نے اپنی شان معالجہ کو کامیاب بنانے کے لئے کیا، اطباء نے اپنے طریق علاج کو نتیجہ خیز کرنے کے لئے کیا، جس کا نام توحید مطلب یا توحید مطب ہے وہی انتظام بعینہ فقہاء ملت نے اپنی شرعی رہنمائی اور دینی تربیت کو پر اثر اور مثمر بنانے کے لئے فرمایا اور اپنی فقہی توحید مطلب کا نام تقلید شخصی یا تقلید معین رکھ کر یہ شرعی مطب کھول دیا تاکہ ایک شخص ایک ہی فقہ کو اپنا دستورِ زندگی ٹھہرا کر اور کئی کئی فقہوں اور فقیہوں کے مخالف آثارِ تربیت کاشکار نہ بن کر اپنے دین پر یکسوئی اور طمانینت سے عمل پیرا رہے کہ اس کے لئے تشویش و پراگندگی اور مذکورہ مفاسد سے بچائو کی کوئی دوسری صورت نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ قرون خیر گزر جانے کے بعد دانایانِ امت نے نظم ملت قائم رکھنے اور اسے تشتت و پراگندگی سے بچانے کے لئے اجتہاد و تقلید کا یہ ایک خاص نظام قائم کیا نہ امت کو اجتہاد میں آزاد چھوڑا کہ ہر شخص مجتہد بن کر کتاب و سنت کواپنے آراء و قیاسات کا کھلونا بنالے اور نہ تقلید میں آزاد چھوڑا کہ جس کی چاہے اور جتنوں کی چاہے تقلیدوں میں چکر کھا کر اپنے نفوس کو تباہ کرلے۔ بلکہ اجتہاد کا دائرہ بھی محدود رکھا جیسا کہ وہ تکویناً بھی محدود تھا اور تقلید کا دائرہ تنگ کیا جیساکہ عقلاً تنگ ہی تھا کہ غیر معین نہ ہو اور معین ہوکر بھی کسی ایسے فرد کی ہو جو علم و عمل ، ورع و تقویٰ، شعور تشریع، علم لدنی، ادراکِ خواص و احکام، اکتشاف اسراروعلل، وجدانِ ظواہر و بواطن، احساس جزئیات و کلیاتِ شریعت میں یگانہ۔ ہو، حاذق ہو اور اوپر سے اس کی یہ علمی و عملی قوت اسباب سے بالاتر ہوکر ایک موہبت الٰہی ہو جس کے ماتحت وہ اس آیت کا سچا مصداق ہو کہ:۔
وجعلنا ہم ائمۃ یہدون بامرنا لما صبروا وکانوا بایاتنا یوقنون
ترجمہ: اور ہم نے انہیں امام بنایا جو ہمارے امر کی ہدایت کرتے ہیں جب کہ انہوں نے صبر اختیار کیا اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے رہے۔
یہاں صبر کے لفظ سے قوت عملیہ کی طرف اشارہ ہے کہ تمام طاعت کا مبدأ صبر ہے یعنی وہ صبر علی الطاعات اورصبر بین الشہوات میں راسخ القدم ہو جو مطلق عمل سے آگے کا مرتبہ ہے جس کو حدیث جبرئیل میں احسان سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔
ادھر ایقان سے قوت علمیہ کی طرف اشارہ ہے کہ علوم کی اساس یقین صادق ہی ہے، یعنی وہ شریعت اور اس کے جزوی اور کلی مقاصد کے بارہ میں کمال یقین کے ساتھ درجۂ معرفت پر آیا ہوا ہو جو ایمان سے آگے کا مرتبہ ہے جس کو قرآن نے اطمینان سے تعبیر کیا ہے۔ ولٰکن لیطمئن قلبٰی۔
