اولاد کو دُور نہ کریں ۔۔۔۔کبھی بھی ! (205)۔
انجینئر صاحب ہمارے محلے کے ایک نہایت معزز، تعلیم یافتہ اور خوشحال انسان تھے۔ اُنہوں نے اپنی اولاد کی بہترین پرورش کی، انہیں اعلیٰ ترین تعلیمی ڈگریاں دلوائیں، اور اس امر کا اہتمام کیا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔ گویا ان کے نزدیک والد ہونے کاایک عملی نصب العین یہی تھا کہ اولاد کوخود کفیل بنا دیا جائے۔ اُنہوں نے ہمیشہ یہی سوچ رکھی کہ جب میرے بچے اعلیٰ مقام حاصل کرلیں گے تو اپنی محنت کے بل بوتے پر کمائیں گے، اور یوں ہر ایک اپنی ذمہ داری خود نبھائے گا۔
یہ نظریہ بظاہر ٹھیک معلوم ہوتا ہے، مگر اکثراوقات ہم لوگ ایک اہم پہلو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ جوانی کے عروج میں انسا ن یہ بھول جاتا ہے کہ اولادحال میں اگرچہ ایک بوجھ لگ رہی ہو لیکن مستقبل کی مستقل سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ یہ بوڑھاپے کا سہارا ہوتی ہے ۔اور اس سہارے کا مقصد صرف مالی تعاون نہیں ہوتا(یعنی صرف اتنا سہارا نہیں کہ وہ بوڑھاپے میں آپکو کما کرکھلائے گی) بلکہ جذباتی رفاقت، احترام، اور خدمت بھی ایک انسانی ضرورت ہوتی ہے جو بوڑھاپے میں بہت شدید ضرورت پڑتی ہے۔
اولاد کے تعلق کو محض ذمہ داریسمجھ کر جو لوگ آزاد کردیتے ہیں اور اُنکو خود کفیل بنا کر خوش ہوجاتے ہیںتو پھر ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ انجینئر صاحب کی اولاد ترقی کی منازل طے کرتی رہی۔ ہر ایک اپنے اپنے میدان میں کامیاب اور خوشحال ہوگیا۔ بظاہر یہ ایک مثالی صورتِ حال تھی، لیکن بڑھتی عمر کے ساتھ صاحب کو محسوس ہونے لگا کہ اُن کی زندگی میں کچھ کمی سی ہے۔ اگرچہ اُن کے پاس بے شمار مالی وسائل موجود تھے۔ عالیشان کوٹھی، بہترین گاڑیاں، وفادار ملازمین مگر ایک چیز مفقود تھی اور وہ تھی اولاد کا قُرب، اُن کی توجہ اور احترام۔
وہ اپنی اولاد کو یادکرتے اور اُنکی کوشش ہوتی کہ وہ مجھے ملنے آئیں لیکن جو پرندے ایک مرتبہ پنجرے سے نکل جائیں تو وہ پھر کبھی واپس نہیں لوٹتے۔ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ محلے والوں نے ایک پنچایت منعقد کرنے کا ارادہ کیا اور بزرگوار انجینئر صاحب کی بزرگی، حیثیت اور شرافت کو دیکھتے ہوئے ، سب نے انہی کے حکم پر سرِ تسلیم خم کرنے کا وعدہ کیا، مگر انجینئر صاحب منع کرتے رہے کیونکہ وہ اب بہت ضعیف ہوچکے تھے۔ محلہ والوں کے اصرار پر آخرکار اُنکو یہ ذمہ داری قبول کرنی پڑی۔
مگر وہ پنچایت میں اپنی بات سمجھانے سے معذور تھے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے بڑی اُمیدوں کے ساتھ اپنے سب سے قریب رہنے والے بیٹے کو کال کی۔ وہی بیٹا جسے اعلیٰ تعلیم دلوائی، بہترین مستقبل دیالیکن پھر اُسکو آزاد کردیا تھا۔
آج جب باپ نے اسے مدد کے لئے پکارا تو بیٹا کسی بھی طرح راضی نہ ہوا۔ وہ صرف یہی کہتا رہا، ’’ابا! جو بھی فیصلہ کرنا ہے آپ خود کیجئے، میں اس معاملے میں کیوں دخل دوں؟‘‘
اس لمحے انجینئر صاحب کے چہرے پر ملال اور افسوس صاف نظر آرہے تھے۔ انہوں نے نرم لہجے میں پوری وضاحت کے ساتھ بیٹے کو یہ بھی کہا:
’’بیٹا! میں تمہارا باپ ہوں، صرف مجھ سے ملنے کی نیت سے ہی آجاؤ، میں چاہتا ہوں کہ تم میری بات کو سمجھ سکو اور پنچایت میں تم بولو‘‘
مگر افسوس کہ یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہوئی۔ نہایت افسردگی کے عالم میں انجینئر صاحب کو یہ احساس شدت سے ہوا کہ مالی آسودگی چاہے جتنی بھی بڑھ جائےانسان کو اپنوں کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ ملازم (خواہ جتنے بھی ہوں)آپ کے احکام بجا تو لاتے ہیںمگر اُن کے دل میں وہ محبت، گرم جوشی ، اپنائیت اور جذبۂ خدمت نہیں ہوتا جو اولاد کے دل میں قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اولاد کوخودکفیل بنانا والدین کا فریضہ ہے، لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہی فریضہ ہے۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کی خوشی، غمی، کامیابی اور ناکامیوں میں ان کے ساتھ کھڑے رہیں، ان کی بعض ناپسندیدہ عادتوں کو بھی برداشت کریں اور زندگی کے اتار چڑھاؤ میں ساتھ نبھائیں۔ اولاد کووقت دیں، توجہ دیں، اور ان کے دلوں میں اپنے لئے احترام کی شمع روشن رکھیں۔ جو لوگ صرف مالی آسودگی پر بھروسہ کر کے اولاد کو دھیرے دھیرے خود سے دور کردیتے ہیں، انہیں بالآخر ایک دن احساس ضرور ہوتا ہے۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

