اولاد پر حد سے زیادہ سختی نہ کریں! (136)۔
جب والدین اپنی اولاد پر بہت زیادہ سختی کریں اور ان کی حوصلہ افزائی نہ کریں تو ان کے دلوں میں ایک خالی پن پیدا ہوتا ہے جو کہ بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ خالی پن اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ انہیں محبت، حوصلہ افزائی اور تعریف کی ضرورت ہے، جو انہیں اپنے گھر سے نہیں مل رہی۔ یہ کمی پوری کرنے کے لیے وہ گھر سے باہر خوشی اور حوصلہ کا سامان ڈھونڈنے لگتے ہیں۔جب بچے گھر سے باہر خوشی اور حوصلہ ڈھونڈنے نکلتے ہیں، تو انہیں مختلف لوگوں اور ماحول کا سامنا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار توبچوںکو گھر سے باہر اچھی صحبت مل جاتی ہے۔ لیکن اکثر اوقات وہ بری صحبت میں بھی پھنس سکتے ہیں۔
بری صحبت میں وہ ایسے لوگوں کے ساتھ جڑ جاتے ہیں جو منفی رویوں، بُری عادتوں اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ صحبت بچے کے مستقبل اور شخصیت پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔بری صحبت میں پھنسنے کے نتیجے میں بچے غلط راستے پر چل پڑتے ہیں، جہاں انہیں نشے، جرم، اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کی طرف مائل کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں نہ صرف بچے کی زندگی برباد ہوتی ہے بلکہ والدین کو بھی سخت مایوسی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی محبت اور حوصلہ افزائی کریں، ان کی کوششوں کی تعریف کریں، اور ان کی غلطیوں کو برداشت کرتے ہوئے ان کی اصلاح کریں۔ محبت اور حوصلہ افزائی سے بچے اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتے ہیں، جس سے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ورنہ اولاد ہاتھ سے نکل جائے تو اُسکے حالات بہت خراب ہوجاتے ہیں۔
آج میں نے ایک لڑکے کو دیکھا جو کہ قریبی محلے میں رہتا تھا اُسکے والداُسکو اکثر ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے تھے اور مارتے بھی تھے۔وہ لڑکا چودہ پندرہ سال کی عمر تک سہتا رہا مگر دل میں بغاوت کے جذبات بڑھتے رہے۔ حتیٰ کہ اب اُسکی عمر اٹھارہ سال سے اوپر ہوچکی ہے اور اُسکو کسی نے تبلیغی جماعت کے راستے پر لگا دیا ہے۔ تبلیغی جماعت والوں کی بھی یہ خوبی ہے کہ وہ ہرانسان کو حسب نسب معلوم کئے بغیر قبول کرلیتےہیں۔ حالانکہ کچھ عرصہ پیچھے چلے جائیں تو حسب نسب اتنا ضروری ہوتا تھا کہ دوکان پر بھی چیز خریدنے سے پہلے دوکاندار پوچھتا تھا کہ بیٹا! کہاں سے آئے ہو؟
مگر اب تبلیغی جماعت والے ہر قسم کے شخص کو حال و قال اور حسب و نسب جانے بغیرقبول کرلیتےہیں۔ اگرچہ یہ چیز جماعت کے لئے مفید ہوسکتی ہے مگر کچھ گھرانوں پر اسکا برا اثر بھی پڑتا ہے۔
اب اس لڑکے کوتبلیغی جماعت والوں نے دین کے کام پر تو لگا دیا ہے مگر وہ لڑکا اپنے گھر کے کسی کام کا نہیں رہا۔ اگرچہ ایک غلطی تو والدین کی بھی ہے مگر اُسکے بعد دوسری غلطی اُن لوگوں کی ہے جنہوں نے اس کے حال و قال کو جانچ کئے بغیر جماعت میں جانے کے لئے قبول کرلیا۔میری رائے یہ ہے کہ تبلیغ جماعت میں کسی بھی شخص کو قبول کرنے کے لئے یہ شرط عائد کرنی چاہئےکہ وہ اپنے سرپرست کا رقعہ لے کر آئےاسی میں جماعت کی حفاظت بھی ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ والدین کی سختی اور حوصلہ شکنی بچوں کو گھر سے بھاگنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ اور ایسے بھاگے ہوئے لوگوں کو اگر کوئی شخص بغیر تحقیق کے پناہ میں لے لے تو معاملات مزید بگڑ جاتے ہیں۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

