اولاد پر اپنی مرضی مسلط نہ کریں! (88)۔

اولاد پر اپنی مرضی مسلط نہ کریں! (88)۔

یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں یہ قانون نافذ ہے کہ جب کوئی نوجوان اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ جائے تو وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا اہل ہوتا ہے۔ اسے اپنی کمائی خود کرنا اور اپنی ضروریات خود پوری کرنی ہوتی ہیں۔ اس پر والدین کا کوئی حق نہیں رہتا اور وہ اپنی مرضی سے شادی بھی کر سکتا ہے۔ بظاہر یہ قانون نوجوانوں کو خودمختاری اور آزادی فراہم کرتا ہے، مگر اس کے منفی پہلو بھی ہیں۔
اس قسم کی آزادی اکثر نوجوانوں کو معاشرتی بےراہ روی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور خاندان سے دوری کا باعث بنتی ہے۔کیونکہ سر پر کسی بڑے کا سایہ نہیں ہوتا اور کوئی سمجھانے والا نہیں ہوتا۔
پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔ یہاں کے روایتی معاشرتی نظام میں اولاد جوان ہونے کے بعد بھی والدین کی عزت کرتی ہے اور اُن کے فیصلوں کی قدر کرتی ہے۔ والدین اور اولاد کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ برقرار رہتا ہے جو خاندان کے اتحاد اور باہمی مدد کا باعث بنتا ہے۔
تاہم، کچھ والدین اس رواج کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اولاد پر جبراً اپنے فیصلے مسلط کر دیتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض نوجوان چالیس سال کی عمر تک پہنچ جانے کے بعد بھی اپنے فیصلے خود کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور معاشرتی صلاحیتوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ اپنی اولاد کے ساتھ ایک معتدل رویہ اپنائیں۔ انہیں نہ تو اتنی زیادہ آزادی دیں کہ وہ بے راہ روی کا شکار ہو جائیں اور نہ ہی اتنی زیادہ پابندیاں لگائیں کہ وہ اپنی خود اعتمادی کھو بیٹھیں۔
بچوں کی پرورش اور تربیت میں اعتدال کا راستہ ہی بہترین ہے۔ اگر بچے اپنی زندگی کے کچھ فیصلے خود کرنا چاہیں تو انہیں اس کا موقع دینا چاہئے، اُن پر بھروسہ کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنی زندگی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل بن سکیں۔
معاشرتی توازن کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی اولاد کے ساتھ اعتدال پسند رویہ اختیار کریں۔ انہیں صحیح اور غلط کی پہچان کرائیں، ان کی رہنمائی کریں لیکن ان پر اپنی مرضی مسلط نہ کریں۔ اس طرح وہ نہ صرف اپنے والدین کی عزت کریں گے بلکہ اپنی زندگی کے فیصلے بھی دانشمندی سے کرنے کے قابل ہوں گے۔ اس متوازن تربیت سے وہ خود مختار، خود اعتماد اور معاشرتی طور پر ذمہ دار شہری بن سکیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو فہم سلیم عطا فرمائے۔ آمین۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more