انما الاعمال بالخواتیم
ارشاد فرمایا کہ اعمال کا دارومدار خاتموں پر ہے یعنی انسان اس دنیا سے کوچ کے وقت فکر و عمل کی جس کیفیت و حالت پر ہوگا اسی کے مطابق وہ قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔یہ مہلت اس کے پاس حالت ِ نزع طاری ہونے سے پہلے تک ہوتی ہے۔ اس کے بعد کوئی عمل کارآمد نہیں ہوتا۔
مومن کے ساتھ خوش گمان رہنے کی تاکید ہے تاہم کسی انسان کے مرنے کے بعد اس کے انجام کے بارے میں حتمی رائے دینا صحیح نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ کسی ظاہری علامت کے ظہور کے بعد بھی نہیں۔ ایسی علامت سے نیک فالی تو لی جاسکتی ہے لیکن اس پر حتمی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ ایک قریب المرگ زبان سے کلمۂ توحید کا ورد کرتے سنائی دے تو یہ بظاہر بہت اچھی حالت ہے لیکن اس میں احتمال ہے کہ پردۂ غیب اٹھ جانے کے بعد فرشتوں کے دیدار اور عالمِ اخروی کے مشاہدے کے سبب ایمان کا اقرار کررہا ہو جو مفید نہیں، بالکل اسی طرح جیسے فرعون غرق ہونے سے قبل پکار اٹھا تھا کہ
اٰمنت برب موسی وہارون
میں موسیٰ اور ہارون کے رب پہ ایمان لایا۔
پس انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام کے علاوہ کسی کے انجام کے بارے میں حتمی رائے دینے سے گریز لازم ہے۔
(مؤرخہ ۲۰ مارچ۲۰۱۹ء درسِ صحیح بخاری،بمقام دارالحدیث،، اسلامک دعوۃ اکیڈمی، لیسٹر، برطانیہ)
ازافادات محبوب العلماء حضرت مولانا سلیم دھورات مدظلہ العالی (خلیفہ مجاز مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ تعالیٰ)۔
نوٹ: اس طرح کے دیگر قیمتی ملفوظات جو اکابر اولیاء اللہ کے فرمودہ قیمتی جواہرات ہیں ۔ آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online/
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔ براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ ودیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔
اور ایسے قیمتی ملفوظات ہمارے واٹس ایپ چینل پر بھی مستقل شئیر کئے جاتے ہیں ۔ چینل کو فالو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
شکریہ ۔