امر چہارم
پھر جناب مودودی صاحب کے نظریہ کے مطابق جب چودہ سو سالہ امت کا کوئی بھی فرد تنقید سے بالا نہیں‘ نہ کسی پر اعتماد کیا جاسکتا ہے‘ بلکہ خدا کی بتائی ہوئی کسوٹی پر ہر ایک کو جانچنا اور پرکھنا لازم ہے تو سوال یہ ہے کہ جو دین آج امت کو سلف صالحین کی نقل وروایت اور علم وعمل کے ذریعہ پہنچا ہے اس پر اعتماد کیسے کیا جائے‘ تم جانتے ہو کہ ہمارے دین کے دلائل کل چار ہیں۔ ۱۔ کتاب اللہ۔ ۲۔ سنت رسول اللہ۔ (خلفائے راشدین کی سنت اسی کے ضمن میں آجاتی ہے) ۳۔ اجماع امت۔ ۴۔ قیاس مجتہدین۔
آئمہ اجتہاد کے فقہی مسائل تو یوں ختم ہوئے کہ مودودی صاحب ماشاء اللہ خود مجتہد مطلق ہیں انہیں دین فہمی کیلئے ماضی وحال کے کسی بزرگ سے علمی استفادہ کی حاجت نہیں اور جب پوری امت کو محتاج تنقید اور نالائق اعتماد فرض کرلیا جائے تو ظاہر ہے کہ ان کے اجماع کی بھی کوئی حیثیت نہ ہوگی اور کتاب وسنت کا مدار روایت ودرایت پر ہے جن لوگوں کے علم و عمل پر ہی اعتماد نہیں ان کی روایت ودرایت کا حال معلوم خصوصاً جبکہ مودودی صاحب کی تحقیق کے مطابق صحابہ کرامؓ ایک دوسرے پر چوٹیں کیا کرتے تھے اورایک دوسرے کو (نعوذ باللہ) جھوٹا بتایا کرتے تھے اگر صحابہ کرامؓ بھی نعوذ باللہ ایسے ہی تھے جس کی تصویر مودودی صاحب کی تنقیدات نے مرتب کی ہے تو بعد کی امت تو ظاہر ہے کہ بدتر ہی ہوگی نتیجہ یہ کہ قرآن وحدیث سے لیکر اجماع و قیاس تک ہر چیز مشکوک اور ناقابل اعتماد ٹھہری جب تک کہ خدا کے بتائے ہوئے معیار پر پرکھ کر مودودی صاحب ہمیں نہ بتائیں کہ فلاں چیز کتنی حد تک قابل اعتماد ہے اور کتنی حد تک نہیں۔
ذرا انصاف سے کہئے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور مسٹر غلام احمد پرویز اس کے سوا اور کیا کہتے ہیں اور پھر یہ ’’خدائی معیار‘‘ مودودی صاحب کو کہاں سے حاصل ہوگا جس پر جانچ جانچ کر وہ سلف صالحین میں سے ایک ایک فرد کی درجہ بندی کریں گے (اور جیسی درجہ بندی انہوں نے کردی ہے اس کا کچھ نمونہ تم دیکھ ہی چکے ہو) کیا ان پر نئے سرے سے وحی نازل ہوگی یا چودہ سو سال پیچھے کی طرف زقند لگا کر وہ براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن وسنت سن لیں گے؟
جب وہ ماضی یا حال کے کسی بھی بزرگ کے واسطے کے قائل نہیں‘ نہ کسی ’’ذہنی غلامی‘‘ کی ذلت اٹھانے کیلئے وہ تیار ہیں تو آخری خدائی معیار انہیں کس غار سے دستیاب ہوگا۔
