امام ابو دائود رحمہ اللہ کا واقعہ
امام ابو دائود بہت بڑے محدث ہیں۔۔۔۔ وہ دریا کے کنارے کھڑے تھے اور کنارے پر پانی کم تھا۔۔۔۔ ایک جہاز دو تین سو قدم کے فاصلے پر کھڑا ہوا تھا کنارے تک آنہیں سکتا تھا۔۔۔۔ جہاز میں ایک شخص کو چھینک آئی اور اس نے الحمدللہ کہا اور اتنے زور سے کہا کہ ان کے کان میں آواز آئی تو مسئلہ یہ ہے کہ اس کا جواب یرحمک اللہ کہہ کر دینا چاہئے مگر یہ مسئلہ مجلس سے متعلق ہے۔۔۔۔ یہ نہیں کہ اگر کوئی بازار میں الحمدللہ کہے تو تم گھر سے جواب دینے جائو۔۔۔۔ امام ابو دائود رحمہ اللہ کے کان میں الحمدللہ کی آواز پڑی۔۔۔۔ یہ لوگ چونکہ نیکیوں کے حریص تھے۔۔۔۔ چھوٹی سی نیکی ملنے کا امکان ہو تو چھوڑنا نہیں چاہتے۔۔۔۔ نیکی اور خیر کی ہوس پیدا ہوجاتی ہے۔۔۔۔ جہاز دور تھا۔۔۔۔ آواز پہنچ نہیں سکتی تھی تین درہم میں کشتی کرایہ پر لی۔۔۔۔ اس میں بیٹھ کر جہاز کے اوپر چڑھے۔۔۔۔
وہاں جاکر کہا یرحمک اللہ ترجمہ نگار لکھتے ہیں کہ غیب سے آواز کان میں آئی کہ اے ابی دائود ! آج تین درہم میں تو نے جنت کو خرید لیا۔۔۔۔ حالانکہ امام کتنے بڑے محدث‘ کتنی حدیثیں لکھیں‘ کتنے تہجد پڑھے‘ کتنے جہاد کئے ہوں گے‘ مگر جنت کی خریداری میں بڑے بڑے اعمال کا ذکر نہیں بلکہ ذکر آیا تو یرحمک اللہ کہنے کا جو بظاہر بہت چھوٹا اور معمولی سا عمل تھا مگر کیوں آیا؟ اس لئے کہ ایسے اخلاص سے عمل کیا کہ اس چھوٹے سے عمل میں اتنا وزن پیدا ہوا کہ بڑے سے بڑے عمل میں اتنا نہ ہوگا اور اللہ کے ہاں عمل کی صورت نہیں وزن دیکھا جاتا ہے کشتی لے کر جہاز پر جاکر یرحمک اللہ کہنا نہ فرض تھا نہ واجب مگر یہ لوگ آداب پر عمل کے حریص ہوتے ہیں تاکہ فرائض پر عمل میں کوتاہی نہ آئے۔۔۔۔ تو تادب مع اللہ اتنا ضروری ہے۔۔۔۔
اس زمانے میں چونکہ بے ادبی اور گستاخی کے جذبات پیدا ہوچکے ہیں۔۔۔۔ فرقہ بندی زیادہ ہوگئی ایک دوسرے کے حق میں زبان طعن و ملامت اور زبان تضحیک کھولنا بہت معمولی بات بن گئی۔۔۔۔ اس واسطے میں نے یہ سمع خراشی آپ لوگوں کی کی کہ اگر بالفرض کسی عالم سے اختلاف آبھی جائے تو اگر آپ خود عالم ہیں تب آپ پر فرض ہے کہ دوسرے کا احترام کریں اور اگر آپ متبع ہیں اور وہ اقتدا کررہا ہے دوسرے عالم کی تو عمل اپنے مقتدی و متبوع کی تحقیق پر کریں مگر دوسرے کے ساتھ تمسخر کرنا آپ کے حق میں بالکل جائز نہیں۔۔۔۔ بلکہ آپ یہ تاویل کریں کہ اس کے ہاتھ میں بھی حجت ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آتی جو وہ کہتا ہے عنداللہ وہ بھی مقبول ہے۔۔۔۔ ہر مجتہد خطا بھی کرتا ہے اور صواب بھی اگر خطا ہوجائے تو بھی اسے اجر ملتا ہے اور آپ اس پر عقاب اور عذاب بھیجنے لگیں یہ تو خدا کا مقابلہ ہوگیا۔۔۔۔ حق تعالیٰ کے ہاں اجتہاد کی خطا پر بھی ملامت نہیں۔۔۔۔ آج کل فروعی اختلاف کی وجہ سے مسخرہ پن بڑھ گیا ہے۔۔۔۔ یہ دین کے منافی ہے۔۔۔۔ بے شک آدمی عمل اپنی تحقیق پر کرے اور دوسرے کو معذور رکھے ادب اور احترام میں کمی نہ آنے دے یہ دانائی کی بات ہے۔۔۔۔
