اللہ تعالیٰ کی نصرت
مجھے یاد ہے یہ کوئی ۱۹۸۶ کے قریب کا زمانہ تھا تو امریکہ میں کسی جگہ ایک مسجد اور مدرسہ بنانا تھا، تو اللہ توکل ہم نے ابتدا کردی۔ وہاں کی کمیونٹی کے لوگ بڑے جوش جذبے میں تھے کہ بھئی جلدی سے جلدی اللہ کا گھر بنائیں، کیونکہ اس سے پہلے ہم چرچ کا ہال کرائے پر لے کر چرچ میں تراویح پڑھا کرتے تھے۔ اب وہاں سے جب نکل کے آتے تو کچھ کمروں میں ہمیں مورتیاں نظر آتیں تو ہمارا بڑا دل کڑہتا اور ہم دعائیں مانگتے کہ ا ے اللہ! ہمیں اپنا گھر دیدے۔ اللہ کی شان کہ ایک ختم قرآن کے موقعے پر دعا مانگتے ہوئے اس عاجز کی زبان سے یہ لفظ نکلا، اے اللہ! آئندہ سال تو اپنے گھر میں تراویح کی توفیق عطا فرما اور واقعی اللہ تعالیٰ کی ایسی رحمت ہوئی کہ اگلے رمضان سے پہلے اللہ تعالیٰ نے وہ گھر دے دیا اور وہاں پر تراویح اور نماز ِ جمعہ سب کچھ باقاعدہ شروع ہو گیا۔
جن دنوں میں کام شروع ہورہا تھا ایک صاحب میرے پاس آئے، کہنے لگے: حضرت صاحب! بس آپ میرا پردہ رکھ لینا، میرے حالات بالکل اچھے نہیں ہیں اور میں تو سو ڈالر دینے کا بھی اہل نہیں ہوں، لوگوں کی نظر میں میرا وقار بنا ہوا ہے، اب اگر میں کہوں گا میں نہیں دے سکتا تو سارے مجھے طعن کریں گے ، تو آپ میرا پردہ اس طرح سے رکھ لینا کہ مجھے جو کہے گا دو! میں کہوں گا میں نے حضرت صاحب کو دے دیا۔ اور آپ بھی کہہ دینا کہ جی اس نے مجھے دے دیا۔ اس نے سو ڈالر مسجد کے لئے دیے میں نے سوچا کہ بندے کے حالات اچھے نہیں، مجھے کیا غرض کسی کو بتانے کی کہ کس نے کتنا دیا؟ خیر اس نے بڑے کامیاب طریقے سے سو ڈالر دے کے لوگوں میں اپنا وقار اسی طرح بحال رکھا۔ جو پوچھتا آپ نے کتنا دیا؟ او جی میں نے جو دینا تھا میں جا کے دے آیا، ہم بھی چپ رہے ایک مومن کی ستر پوشی اچھی چیز ہے۔ خیر مسجد اللہ نے بنانی تھی وہ بن گئی، مگر چار مہینے کے بعد مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہ اللہ کا بندہ ایک مرتبہ نماز پڑھ کر نکل رہا تھا اور میرے پاس یونیورسٹی کا ایک نوجوان آیا تھا جو تین چار دن پہلے اپنی غفلت بھری زندگی سے توبہ تائب ہوا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر مجھے کہنے لگا کہ حضرت! تین چار دن پہلے یہاں پر ایک کوئی بڑی انڈین گلوکارہ (گانا گانے والی) آئی تھی اور اس کی ٹکٹ ایک ہزار ڈالر فی پرسن رکھی گئی تھی، میں بھی اس میں گیا تھا اور یہ جو بندہ ہے یہ سب سے پہلے لائن میں کھڑا تھا اور اس نے اپنے گھر کے بارہ بندوں کی ٹکٹیں خریدیں تھیں۔ اندازہ لگائیں جو بندہ مجھے کہہ رہا ہے کہ میں مسجد میں ایک سو ڈالر بھی نہیں لگا سکتا، وہ ایک فلمی گانے والی کا گانا سننے کے لئے اپنے گھر کے بارہ بندوں کی ٹکٹیں بارہ ہزار ڈالر میں خرید رہا ہے۔ مجھے اس دن بہت رونا آیا میں نے کہا: اللہ! بندہ خرچ نہیں کرتا آپ چاہتے ہیں توقبول کر لیتے ہیں بندے کے بس کی بات نہیں۔
تو ہوتا یہ ہے کہ جو بندہ حلال طریقے سے حاصل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے مال کو بھی اچھی جگہوں پر لگاتے ہیں، جہاں مدتوں اس کو صدقہ جاریہ ملتا رہتا ہے اور جو ادھر ادھر کا معاملہ ہوتا ہے تو اس کا انجام بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔(ج 35ص92)
اگرآپ کو یہ واقعہ پسند آیا ہے تو اسکو شئیر ضرور کریں اور اس طرح کے دیگر اسلامی واقعات اور اولیاء اللہ کے حالات و تذکرے آپ ہمارے ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھا سکتے ہیں ۔
تمام اسلامی مواد اور دیگر کیٹگریز کو دیکھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
https://readngrow.online/readngrow-categories/
نیز ہم اس ویب سائٹ کی مفید چیزوں کو اس واٹس ایپ چینل پر بھی شئیر کرتے رہتے ہیں ۔
https://whatsapp.com/channel/0029VaviXiKHFxP7rGt5kU1H
یہ چینل فالو کرلیں ۔

