اعتماد کا معیار
کچھ لوگ صرف قرآن و حدیث کو معیار ماننے والے حضرت امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا تھا کہ اگر میری کوئی بات قرآن و حدیث کے خلاف ہو تو اسے دیوار پر دے مارو۔ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ کسی بڑے سے بڑے کی بات بھی اگر قرآن و حدیث سے متصادم ہو تو وہ ہرگز لائق اعتناء نہیں۔ یہاں مسئلہ زیر بحث تو اعتماد کا ہے۔ کہ اگر بڑوں کی تحقیق ان کا کوئی عمل یا قول اگر قرآن و حدیث کے خلاف نہیں تو وہ بھی حجت اور اہمیت رکھتا ہے۔ تراویح کی باقاعدہ باجماعت ادائیگی، خطبہ جمعہ سے قبل کی اذان یہ سب اپنے بڑوں کے طرز عمل پر اعتماد کے نظائر ہیں۔
اسی قاعدۂ اعتماد کے تحت اکابر نے دین کے معاملے میں کسی نئے امر میں بدعت و سنت کو سمجھنے اور پرکھنے کے لئے ایک معیار بتلایا ہے کہ جس کے موجد عوام الناس ہوں وہ بدعت ہوگی اور جن نئے امور کے موجد اہل علم و صلحاء ہوں اور اس پرعامل ہوں وہ امورنہ بدعت ہوں گے اورنہ ہی ممنوع۔ مدارس کاقیام اور اسکے نظام پر صدیوں سے علماء کا اتفاق دلیل اور حجت کے لئے کافی ہے۔ مروجہ مدارس جس کے نظم و نسق کا قرون اولیٰ میں کوئی ثبوت نہیں ملتا چونکہ اس کے موجد علماء و صلحاء ہیں اس لئے آج تک مدارس کے قیام پر کسی نے نکیر نہیں کی۔ اسی طرح دیگرنئے امور کو قیاس کرلیا جائے۔
لاتجتمع امتی علی الضلالہ کے تحت اُمتی گناہگار تو ہوسکتے ہیں لیکن امت بحیثیت مجموعی خاطی نہیں ہوسکتی اور یہ سب منجانب اﷲ حفاظتی پہرے ہیں اور انہی اصولوں کی بنا پر اکابر پر اعتماد کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔
