اعتدال کے ساتھ اہل وعیال کی فکر کرنا کمال کے منافی نہیں ہے
مقالاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیبیوں سے ارشادفرمایا کہ مجھ کو تمہارے معاملہ ( گذران یعنی گزاره ،بسر اوقات ) میں (ایک گونہ ) فکر ہے کہ میرے بعد کیا ہوگا ؟ اور تم کو ( یعنی تمہاری خدمت گزاری کو ) وہی نباہیں گے جو بڑے ہمت والے اور پکے ہیں۔پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کو بہشت کے چشمہ سلسبیل سے سیراب کرے ( کہ انہوں نے ہماری بڑی خدمت کی ) اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے امہات امؤمنین کو ایک زمین دی تھی جو چالیس ہزار میں فروخت ہوئی اور ابوسلمہ کہتے ہیں کہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے امہات المومنین کے لئے ایک باغ کی وصیت کی تھی جو چار لاکھ کا فروخت ہوا۔(ترمذی)
فائدہ: بعضے ناواقف بس بزرگ کو اہل وعیال کی فکر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں سمجھتے ہیں کہ یہ کامل نہیں ۔ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ فکر خودمسنون ہے البتہ اس میں غلو بے شک منافی کمال بلکہ خودمنافی طریق ہے ۔ نیز حدیث میں امہات المومنین کی خدمت کرنے والوں کو آپ ﷺ کا صابر وصدیق فرمانا جس کے معنی کا حاصل ہے نباہنے والا اور پختہ تعلق والا مشیر اس طرف ہے کہ اہل شیخ کی خدمت کرنا ایک درجہ میں تعلقات شیخ کا نباہ کرنا اور اس میں پختگی کی علامت ہے اور یہ خدمت قریب قریب امرطبعی کے ہے اہل طریق میں۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمتین بن حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

