اطاعت صحابہ رضی اﷲ عنہم اطاعت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہے
اس کی وجہ یہ ہے جو خود اس حدیث ہی سے نمایاں ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اپنے طریق کو بعینہ اپنے صحابہ رضی اﷲ عنہم کا طریق بتایا ہے۔ جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ ان کی راہ چلنا میری راہ چلنا ہے اور ان کی پیروی میری پیروی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے حق تعالیٰ شانہٗ نے اپنے رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ:۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ۔
’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی۔‘‘
اس سے ایک کی اطاعت کو بعینہ دوسرے کی اطاعت بتلانا مقصود ہے جس کے صاف معنی یہی ہوتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا طریق الگ الگ نہیں۔ جو اﷲ کا راستہ ہے وہی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا راستہ ہے۔ پس اﷲ کی اطاعت معلوم کرنے کا معیار یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت دیکھ لی جائے۔ اگر وہ ہے تو بلاشبہ اﷲ تعالیٰ کی اطاعت بھی ہے ورنہ نہیں۔
وہی صورت یہاں بھی ہے کہ رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی پیروی و اطاعت کو بعینہ اپنی پیروی و اطاعت قرار دیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت دیکھنی ہو تو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی اطاعت دیکھ لی جائے۔ اگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی متابعت کی جا رہی ہے تو رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت قائم ہے ورنہ نہیں۔ اس کا حاصل وہی نکلتا ہے کہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابۂ رسول کے طریقے الگ الگ نہیں بلکہ جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا طریقہ ہے وہی بعینہ صحابۂ رسول کا طریقہ ہے۔
اس لئے جیسے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم فرقوں کے حق و باطل کا معیار ہیں۔ ایسے ہی صحابہ رسول اﷲ بھی معیارِ حق و باطل ہیں۔ جن کو سامنے رکھ کر سب کے حق و باطل کو بآسانی پرکھا جاسکتا ہے۔ بہرحال اس حدیث سے حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم کی صرف منقبت اور فضیلت ہی ثابت نہیں ہوتی۔ نیز ان کی معیاری اور مقبولیت ہی ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ اُمت کے حق و باطل کیلئے ان کی معیاری شان بھی ثابت ہوتی ہے۔ کہ وہ خود ہی حق پر نہیں ہیں بلکہ حق و باطل کیلئے اُمت کی کسوٹی بھی بن چکے ہیں۔ جن سے دوسروں کا حق و باطل بھی کھل جاتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ ان میں یہ معیار ہونے کی شان محض ان کی غیر معمولی فضیلت سے بطور رائے و قیاس نہیں مان لی گئی بلکہ اﷲتعالیٰ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے دوش بدوش ان کے معیارِ حق و باطل ہونے کی شہادت دی ہے۔ اس لئے اس کا معیارِ حق و باطل ہونا قیاسی نہیں بلکہ منصوص ثابت ہوا۔
