اس طریق میں قیل و قال سے کام نہیں چلتا
بسلسلہ ملفوظات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ
ارشاد فرمایا کہ اس طریق میں قیل و قال سے کام نہیں چلتا۔ گو معلوم ہوجانا کسی علم کا اچھا ہے مگر وہ کیفیات کہاں جو اس راستہ کو طے کرکے منزل پر پہنچنے سے مشاہد ہوتی ہے ۔ مثلاً ایک شخص تو سفر کرکے بمبئی دیکھ آیا اور ایک آئے ہوئے سے وہاں کے حالات دریافت کرتا ہے ، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس کا صحیح طریق یہ ہے کہ وہاں پر پہنچ جانے کی کوشش کرے جس کے لیے راستہ بتلانے والے کی ضرورت ہوگی مگر جو اس راستے کے بتلانے والے ہیں ان کا یہ ادب ضروری ہے کہ اس سے ان کو کلفت نہ پہنچے ، یہ اس طریق میں بڑی ہی مضر چیز ہے۔ کیونکہ مدعیانِ محبت سے ذرا سی بھی کوتاہی ہو وہ گوارا نہیں ہوتی اور یہ ایک فطری چیز ہے ، اس کا اثر ہوتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ عقیدت اس قدر مطلوب نہیں ، عظمت اس قدر مطلوب نہیں جس قدر محبت کی ضرورت ہے اور یہ ہی زیادہ مطلوب ہے ۔ گو عقیدت جو حدود کے درجہ میں ہو وہ بھی ایک درجہ میں مطلوب ہے مگر بڑی چیز جو ہے وہ محبت ہے۔ خلاصہ یہ کہ اگر محبت ہوگی تو سب چیزوں کی فکر ہوگی کہ کوئی بات مجھ سے ایسی نہ ہو جو سبب بن جائے تکلیف کا اور یہ بہت ہی سہل چیز ہے جس کو اس درجہ سخت سمجھ رکھا ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کا قصد رکھے اہتمام رکھے ، پھر ان شاء اللہ ایسا کوئی کام نہ ہوگا جس سے تکلیف پہنچے اور اگر باوجود قصد اور اہتمام کے پھر بھی ہوجائے تو اس کی اتنی گرانی نہ ہوگی اس لیے کہ جہاں وہ اس کو محسوس کرتا ہے یہ بھی محسوس کرے گا کہ قصد نہ تھا اور اس کے خلاف کا اہتمام بھی تھا مگر انسان ہے ، ہوگیا یہ سمجھ کر وہ معذور سمجھے گا اور اس سے قلب پر گرانی نہ ہوگی۔(آداب ِ شیخ و مرید، صفحہ ۱۴۳)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ ملفوظات شیخ و مرید کے باہمی ربط اور آداب سے متعلق ہیں ۔ خود بھی پڑھیں اور دوستوں سے بھی شئیر کریں ۔
مزید ملفوظات پڑھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
اپنے پاس محفوظ کرلیں ۔
اس طرح کے ملفوظات روزانہ اس واٹس ایپ چینل پر بھی بھیجے جاتے ہیں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
چینل جوائن کریں

