استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔
مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے درمیان جذبۂ طلب اور اخلاص میں ہے۔یعنی طالبعلم میں طلب کاجذبہ موجود ہو اور استاذ میں اخلاص کا جذبہ موجود ہو۔
استاذ اور شاگردمیں تعلق میں یہ بات سمجھ لینی چاہئےکہ استاد سے کسبِ فیض کا مطلب محض کتابیں رٹنے یا امتحانات پاس کرنے تک محدود نہیں، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ شاگرد علمی سفر کے ساتھ ساتھ اخلاق اور برتاؤ میں بھی پختہ ہو۔ تاہم بعض طلبہ صرف اس لیے مدرسے میں داخلہ لیتےہیں کہ انکے سامنے ایک تعلیمی ڈگری یا سند کا حصول ہی مقصد ہوتا ہے۔ وہ اساتذہ سے نہ تو تعلق جوڑتے ہیں اور نہ ہی ان کی ناراضی کی پرواہ کرتے ہیںبس انکامقصد ہوتا ہے کہ وفاق المدارس کے سالانہ امتحانات میں اچھے نمبرآجائیں۔ایسے لوگ جب عالم دین ہونے کا دعویٰ لے کر معاشرے میں نکلتے ہیں تواُنکا علم اگرچہ بہت اچھے نمبر وں والا ہوتا ہےمگر تربیتی نقائص فساد اور فتنہ کا سبب بن جاتے ہیں۔یہ ایک المیہ ہے ۔
اسکے سدِباب کے لیے ضروری ہے کہ مدرسے کے اندرونی نظام کو مضبوط اور قدرے سخت بنایا جائے۔ ایک اہم تجویز یہ ہوسکتی ہے کہ جب وفاق المدارس کے امتحانات سے پہلے مدرسے کے اپنے آخری امتحانات کا انعقاد ہوتا ہے تو اس کے رزلٹ کارڈ پر ہر استاد کے دستخط ہونا لازم قرار دیا جائے۔ یہ دستخط اس بات کی علامت ہوں کہ استاد اپنے شاگرد سے علمی اور اخلاقی دونوں پہلوؤں سے مطمئن ہے۔ جو طالبِ علم کسی استاد کی نظر میں اصلاح کا محتاج ہو، اسے وفاق المدارس کے امتحان میں منتقل نہ کیا جائے، تاوقتیکہ اس کی خامیاں دور نہ ہوجائیں۔
مدارس میں کہیں کہیں اس قسم کا نظام رائج بھی ہے، لیکن اس کے عملی نفاذ میں ایک اور رکاوٹ کھڑی ہوجاتی ہے، اور وہ ہے مہتمم اور منتظمین کا غیر ضروری دباؤ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ استاد نے کسی طالبِ علم کی کمزوریاں دور کرنے کی خاطر اس کا رزلٹ روک لیا یا اسے امتحان میں بٹھانے سے انکار کردیا، تو انتظامیہ استاد پر دباؤ ڈالتی ہے کہ فلاں طالبِ علم کے ساتھ نرمی برتی جائے، یا فلاں گھرانے کے لڑکے کو رعایت دی جائے۔ یہ رویّہ بالکل اسی طرح نقصان دہ ثابت ہوتا ہے جس طرح کھیتی میں ناپختہ فصل کو زبردستی کاٹ کر منڈی لے جایا جائے۔ اس سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ طالبِ علم اگرچہ امتحان پاس کر کے عالمِ دین یا مبلغ بن بھی جاتا ہے، لیکن اس کے اندر وہ پختگی، سنجیدگی اور عملی تربیت موجود نہیں ہوتی جس کی بدولت وہ معاشرے کی درستی کا ذریعہ بن سکے۔
مزید افسوس یہ کہ جب یہ لوگ منصبِ افتا، خطابت یا تدریس سنبھالتے ہیں تو اپنی کوتاہیوں اور نامکمل تربیت کی وجہ سے طرح طرح کے مسائل اور فتنے پیدا کرتے ہیں۔اس صورتحال میں مہتمم حضرات اور مدارس کے منتظمین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ انہیں چاہیے کہ اساتذہ کو مکمل اختیار دیں کہ اگر کوئی طالبِ علم ان کے خیال میں ابھی اخلاقی یا علمی مراحل کے لیے تیار نہیں تو اس کا داخلہ اگلے درجے میں نہ ہو۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اساتذہ کے فیصلوں پر بے جا اعتراض یا مؤاخذہ نہ کیا جائے، کیونکہ اساتذہ ہی وہ افراد ہیں جو براہ راست شاگرد کی فکری اور اخلاقی کیفیت کو جانتے ہیں۔ اگر استاد کسی خرابی یا بے ادبی کے باعث کسی طالب کے مستقبل سے متفکر ہے تو انتظامیہ کو چاہیے کہ اس معاملے میں استاد کی رائے کا احترام کرے اور شاگرد کو سمجھانے یا راہِ راست پر لانے کے لیے اقدامات کرے۔ بصورتِ دیگر جب ایسا طالبِ علم ترقی کرکے اختیارات حاصل کرے گا تو وہ معاشرے کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ مدرسہ شان و شوکت والے کمروں، کشادہ مہمان خانوں یا دیدہ زیب عمارتوں میں بسنے کا نام نہیں۔بلکہ زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے طالب علم اور اخلاص سے پڑھانے والے استاذ کے درمیان تعلق کا نام ہے۔پس ضروری ہے کہ استاد و شاگرد کے تعلق کو مضبوط کریں اور اسمیں اگر کوتاہی ہو تو شاگرد کو پہلے اصلاح کے مراحل سے گزاریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطافرمائے۔ آمین
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M