اساتذہ کے احترام کا انوکھا واقعہ
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی صاحب رحمہ اللہ نے تحریک ریشمی رومال کے دوران ارادہ فرمالیا کہ اب میں حرمین شریفین جاتا ہوں۔۔۔
ایک دن آپ مدرسہ میں چارپائی پر بیٹھے دھوپ میں زمین پر پائوں رکھے کسی کتاب کا مطالعہ کررہے تھے ان دنوں علامہ محمد انو شاہ کشمیری رحمہ اللہ حضرت کی عدم موجودگی میں بخاری شریف پڑھاتے تھے۔۔۔ اس دوران ان کی نظر اپنے استاد حضرت شیخ الہند پر پڑی۔۔۔ جب درس دے چکے تو طلباء سے فرمایا کہ آپ تھوڑی دیر بیٹھیں۔۔۔
آپ یہ کہہ کر کہ میں ابھی آتا ہوں دارالحدیث سے باہر نکل کر سیدھے حضرت کے پاس آکر ان کے قدموں میں بیٹھ گئے۔۔۔
اس کے بعد حضرت سے عرض کرنے لگے حضرت! آپ یہاں ہیں جب ہمیں ضرورت پڑتی ہے تو ہم آپ کی طرف رجوع کر لیتے ہیں ۔۔۔۔ اب آپ نے یہاں سے ہجرت کا ارادہ فرمالیا ہے۔۔۔ اس طرح تو ہم بے سایہ ہوجائیں گے۔۔۔
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے یہ الفاظ کہے اور رونا شروع کردیا حتی کہ انہوں نے بچوں کی طرح بلکنا شروع کردیا۔۔۔ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے بھی انہیں رونے دیا جب ان کے دل کی بھڑاس نکل گئی تو اس وقت شیخ الہند نے انہیں تسلی کی بات کہی اور فرمایا انور شاہ! ہم تھے تو آپ ہماری طرف رجوع کرتے تھے اور جب ہم چلے جائیں گے تو پھر لوگ علم حاصل کرنے کیلئے تمہاری طرف رجوع کیا کریں گے۔۔۔
چنانچہ شاہ صاحب کو اس طرح کی تسلی کی باتیں کرکے واپس بھیج دیا۔۔۔ جب شاہ صاحب چلے گئے تو حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے اپنے دل میں خیال آیا کہ ان کو تو اپنے استاد کی دعائوں کی اتنی قدر ہے اور آج میں اتنے بڑے کام کیلئے جارہا ہوں لیکن آج میرے سر پر تو استاد کا سایہ نہیں ہے جن کی دعائیں لیکر چلتا۔۔۔۔ چنانچہ یہ سوچتے ہی انکو اپنے استاد حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا خیال آیا اور طبیعت میں رقت طاری ہوئی۔۔۔۔ لہٰذا وہیں سے اٹھے اور سیدھے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے گھر گئے۔۔۔۔ دروازے پر دستک دی اور ڈیوڑھی میں کھڑے ہوکر آواز دی۔۔۔۔ اماں جی! میں محمود حسن ہوں۔۔۔۔ اگر حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے جوتے گھر میں پڑے ہیں تو وہ بھجوادیں چنانچہ اماں جی نے ان کے جوتے ان کے پاس بھیج دئیے۔۔۔
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے اپنے استاد کے جوتے اپنے سر پر رکھے اور اللہ رب العزت سے دعا کی۔۔۔۔ اے اللہ! آج میرے استاد سر پر نہیں ہیں۔۔۔۔ میں ان کے جوتے سر پر رکھے بیٹھا ہوں۔۔۔ اے اللہ اس نسبت کی وجہ سے تو میری حفاظت فرمالینا اور مجھے اپنے مقصد میں کامیاب فرما دینا۔۔۔استادوں کی قدر اس وقت آتی ہے۔۔۔۔ جب دیکھنے کیلئے فقط ان کے جوتے باقی رہ جاتے ہیں۔۔۔
مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ صاحب رحمہ اللہ (خلیفہ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ)کے متعلق سنا ہے کہ دارالعلوم دیوبند گئے تو اُن کو اُنکے استاذ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے جوتوں کی زیارت کرائی گئی تو فوراً اپنے کرتہ کے اندر دل کے ساتھ لگائے رکھا اور روتے رہے۔۔۔
