ادب کا تقاضا مقدم ہوتا ہے (128)۔

ادب کا تقاضا مقدم ہوتا ہے (128)۔

ادب ایک ایسا جوہر ہے جو معاشرتی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ادب کی اہمیت اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ یہ انسانوں کے باہمی تعلقات کو خوشگوار اور پرامن بناتا ہے۔ ایک مشہور ترین مقولہ ہے کہ باادب بانصیب ہوتا ہے۔
ادب کی عظمت کے حوالے سے بے شمار واقعات موجود ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ادب کا تقاضا ملحوظ رکھناحقیقت بیان کرنے سےبہتر ہوتا ہے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا واقعہ اس کی بہترین مثال ہے۔ جب ان سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ آپ بڑے ہیں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم؟
تو حقیقت یہی تھی کہ وہ عمر میں بڑے تھے،
مگر ان کا جواب تھا:میری عمر زیادہ ہےمگر وہ (صلی اللہ علیہ وسلم)مجھ سے بڑے ہیں۔
یہاں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ادب کو ملحوظ خاطر رکھا اور حقیقت کو ثانوی حیثیت دی۔حالانکہ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ میں اُنکا چچا ہوں اور اُن سے بڑا ہوں۔لیکن انکے الفاظ ایک عمدہ مثال ہیں کہ کس طرح حقیقت کو بیان کرنے میں بھی ادب کو ملحوظ خاظر رکھا۔ادب کی اس اہمیت کو سمجھتے ہوئے یاد رکھیں!
اگر کسی بڑے مرتبہ والے شخص کی بات حقیقت کے خلاف ہو تو بعض اوقات اس کے سامنے کھرا سچ بولنا بے ادبی کہلاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں خاموشی یا الفاظ کا محتاط انتخاب بہتر ہوتا ہے۔ اس طرح حقیقت بھی بیان ہو جاتی ہے اور بے ادبی بھی نہیں ہوتی۔
ادب کا یہ تقاضا ہے کہ ہم اپنے والدین، اساتذہ اور بزرگوں کی عزت کریں اور ان کی باتوں کا احترام کریں، چاہے وہ حقیقت کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہم جھوٹ بولنے کی حمایت کریں، بلکہ یہ کہ ہم اپنے بزرگوں کے احترام میں ان کے سامنے حقیقت کو اس انداز میں بیان کریں کہ ان کی عزت میں کمی نہ آئے۔ادب کی یہ اہمیت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ اپنے رویوں میں نرمی، شفقت اور احترام کو مدنظر رکھنا چاہئے۔
حقیقت کو بیان کرنا اہم ہے، مگر اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اپنی باتوں سے کسی کی دل آزاری نہ کریں اور آداب کو ہمیشہ مقدم رکھیں۔
لہٰذا، ادب کا درجہ حقیقت سے بلند تر ہے کیونکہ یہ انسانوں کے دلوں کو جیتنے اور معاشرتی امن کو قائم رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ادب کا دامن تھام کر بات کرنے سے ہم نہ صرف حقیقت کو بیان کر سکتے ہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں اپنی عزت بھی قائم رکھ سکتے ہیں۔
ادب اور حقیقت کا یہ متوازن امتزاج ہی ایک کامیاب اور پرامن زندگی کی ضمانت ہے۔اور یہی اسلامی تعلیمات ہیں۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more