اخلاص اور مجسم نمونہ اسلاف کی ایک تصویر
راقم الحروف مرتب کتاب ہذا محمد اسحق غفرلہ عرض کرتا ہے کہ آج سے تقریباً دس سال قبل محترم مولانا فتح محمد قاسمی رحمہ اللہ سے شرف ملاقات ہوئی۔۔۔ دارالعلوم دیوبند میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ ودیگر اکابر سے شرف تلمذ کی وجہ سے احقر مرتب کتاب ہذانے عرض کیا کہ اپنی زمانہ طالب علمی اور اکابر سے متعلق اہم واقعات سنائیں ۔۔۔ حضرت نے اس درخواست پر متعدد واقعات سنائے۔۔۔
مولانا کی محبت و شفقت کے پیش نظر بندہ نے عرض کیا کہ آپ یہ واقعات خود تحریر فرما کر ہمیں دیدیں تو جملہ اخلاف پر احسان عظیم ہوگا۔۔۔ ذیل میں حضرت ہی کے تحریر فرمودہ واقعات میں سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے ۔۔۔ یاد رہے کہ مولانا موصوف کی اصل تحریر بھی بندہ کے پاس محفوظ ہے۔۔۔ (محمد اسحق غفرلہ)
احقر فتح محمد قاسمی عرض رساں ہے کہ غالباً ۱۹۴۰ء یا اس کے قریب کا زمانہ تھا جبکہ یہ احقر دارالعلوم دیوبند میں زیرتعلیم تھا۔۔۔ اُن دنوں حضرت اقدس مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم میں بعہدۂ صدر مہتمم متمکن تھے۔۔۔ موصوف کے خلاف چند شورش پسند طلباء نے انتظامی اُمور میں شورش برپا کی اور یہ مطالبہ زور و شور سے کیا گیا کہ حضرت موصوف کو اس عہدہ سے الگ کیا جائے۔۔۔ چنانچہ یہ شورش اس قدر بڑھی کہ جب ہم صبح سویرے نماز کے لیے اُٹھتے تو ہمارے کمروں میں اس قسم کے پمفلٹ موجود ہوتے۔۔۔ حضرت اقدس مدنی رحمۃ اللہ علیہ اُن دنوں مدرسہ سے باہر کہیں سفر پر تھے۔۔۔ غالباً کافی دنوں کے بعد حضرت موصوف مدرسہ میں تشریف لائے تو ساری صورت اُن پر واضح ہوئی۔۔۔ حضرت موصوف رحمۃ اللہ علیہ نے دارِاہتمام میں حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مشورہ کیا۔
اور طے پایا کہ آج ہی بعد از نماز عصر حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ اس نامعقول شورش کی بابت طلباء سے خطاب فرمائیں گے۔۔۔ دفتر اہتمام سے صدر دروازہ پر آویزاں بورڈ پر یہ اعلان جاری کیا گیا کہ آج بعد از نماز عصر حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ طلباء سے خطاب فرمائیں گے۔۔۔ لہٰذا تمام طلباء عصر کے بعد مسجد میں ہی جمع رہیں۔۔۔
عصر کی نماز میں حضرت اقدس مدنی رحمۃ اللہ علیہ حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی اور حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمہم اللہ اور تمام اساتذہ کرام کی معیت میں تشریف لائے۔۔۔ نماز کے بعد حضرت موصوف کھڑے ہوئے۔۔۔ ایسی صورت میں کہ آپ کی دائیں جانب حضرت مولانا شبیر احمد صاحب اور بائیں جانب حضرت قاری صاحب اور پچھلی صف میں دیگر تمام اکابر، اساتذہ تشریف فرما تھے۔۔۔ اُس وقت حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا چہرہ اس واقعہ کی ناراضگی کی وجہ سے سخت متغیر تھا۔۔۔ حضرت موصوف نے اُٹھتے ہی خطبہ مسنونہ کے بعد دارالعلوم کے فضائل اور برکات اور پھر حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی رحمہ اللہ کے محاسن بیان کرنا شروع کیے۔۔۔
آپ نے فرمایا کہ اس دارالعلوم میں میرا منہ کالا کیا جائے اور میرے گلے میں جوتیوں کا ہار ڈالا جائے، میری بے عزتی کی جائے، مجھے یہ منظور ہے مگر میں حضرت مولانا شبیر احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تذلیل گوارا نہیں کرسکتا۔۔۔ اللہ پاک نے ان سے دو خدمات ایسی لی ہیں جو میں نہیں کرسکتا، میں کیا کروں؟ یہ اللہ پاک کی اُن پر خاص عنایات ہیں۔۔۔ قرآن پاک کا حاشیہ اور صحیح مسلم کی شرح ۔۔۔۔یہ دو چیزیں ان کی نجات کے لیے کافی ہیں اور پھر زور دے کر فرمایا کہ میرے جیسے پچاس کو موصوف پڑھا سکتے ہیں مگر میں موصوف کی توہین گوارا نہیں کرسکتا۔۔۔
اس کے بعد حضرت نے فرمایا کہ جن لڑکوں نے یہ حرکات کی ہیں میں اُن کے لیے تہجد کے وقت بددُعا کروں گا اور پھر معاً فرمایا کہ وہ وقت تو ابھی دُور ہے، میں ابھی اُن کے لیے بددُعا کرتا ہوں یہ کہہ کر حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھائے، حضرت کا ہاتھ اُٹھانا تھا کہ اُن لڑکوں کی چیخیں نکل گئیں اور وہ دوڑ کر حضرت کے پائوں پڑگئے۔۔۔ حضرت موصوف نے دھتکار دیا کہ جائو حضرت مولانا شبیر احمد صاحب رحمہ اللہ کے پائوں پکڑو، ایسی حالت میں تمام لڑکوں میں ہل چل مچ گئی۔۔۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت مولانا شبیر احمد صاحب رحمہ اللہ نے ان کو معاف فرما دیا مگر حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا غصہ فرو نہ ہوا اور فرمایا کہ میں ان کو معاف نہیں کرتا۔۔۔ انہوں نے مجھے قلبی تکلیف پہنچائی، ان کا علاج یہ ہے کہ ان کو مدرسہ سے خارج کردیا جائے۔۔۔چنانچہ وہ لڑکے مدرسہ سے خارج کردیئے گئے۔۔(از مرتب)
