اختلاف کا اُصولی حل
محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالرئوف صاحب اپنے رسالہ ’’اِسلامی بینکاری‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:مخلص و محقق اور معتبر اکابر علمائے کرام کے درمیان کسی مسئلہ کی تحقیق کے سلسلے میں جب اختلاف ہوجائے تو بزرگ اکابر حضرات رحمہم اﷲ تعالیٰ کے ارشادات میں مکمل رہنمائی موجود ہے۔۔۔
حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی نوراﷲ مرقدہ علماء حقانی اور مجتہدین کے اختلاف کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں۔۔۔
حدیث میں واقعہ موجود ہے کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بنی قریظہ کی طرف جہاد کے لئے تشریف لے چلے۔۔۔ لشکر سے فرمایا کہ جلدی چلو اور عصر کی نماز بنی قریظہ میں پہنچ کر پڑھو۔۔۔ اتفاق سے راستہ میں عصر کا وقت آگیا لشکر بروقت ایک جگہ تو ہوتا نہیں متفرق جماعتیں ہوا کرتی ہیں جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دور تھے ان کے آپس میں اختلاف ہوا کہ عصر کی نماز راستہ میں پڑھیں یا نہیں ایک فریق نے کہا کہ حضور کا حکم تویہی ہے کہ بنی قریظہ میں پڑھیں…
چنانچہ اس فریق نے راستہ میں نماز نہیں پڑھی اور برابر چلے گئے۔۔۔ جب بنی قریظہ پہنچے تو عصر کا وقت ہی ختم ہوگیا تھا۔۔۔ مغرب کے وقت عصر کی نماز پڑھی اور دوسرے فریق نے کہا کہ حضور کے ارشاد کا یہ مطلب نہیں کہ عصر کی نماز باوجود وقت ہوجانے راستے میں نہ پڑھیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جلد پہنچنے کی کوشش کرو جس میں عصر تک پہنچ جائو چنانچہ اس فریق نے راستہ ہی میں نماز پڑھ لی پھر وہاں پہنچ کر دونوں فریق نے حضور کے سامنے یہ واقعہ پیش کیا حضور دونوں سے خوش ہوئے دیکھئے دونوں کے کام ایک دوسرے کے مخالف تھے ایک نے نماز وقت پر پڑھی اور دوسرے نے وقت کے بعد مگر دونوں ناکام نہیں رہے۔۔۔ حضور دونوں سے خوش رہے اور حضور کی رضا عین حق تعالیٰ کی رضا ہے الحاصل نتیجہ یہ ہوا کہ حق تعالیٰ دونوں فریق سے راضی رہے۔۔۔
ایک دوسری نظیر اس سے واضح پیش کرتا ہوں: ’’مسئلہ یہ ہے کہ اگر جنگل میں چار آدمی ہوں اور نماز کا وقت آجاوے اور قبلہ معلوم نہ ہوسکے تو ایسی حالت میں شرعاً جہت تحری قبلہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خوب سوچ لینا چاہئے جس طرف قبلہ ہونے کا ظن غالب ہو۔۔۔ اسی طرف نماز پڑھ لینی چاہئے۔۔۔ اب فرض کیجئے کہ ان چاروں آدمیوں میں اختلاف ہوا۔۔۔ ایک کی رائے پورب کی طرف۔۔۔ ایک کی پچھم کی جانب ۔۔۔ ایک کی دکھن۔۔۔ ایک کی اتر کی طرف قبلہ ہونے کی ہوئی تو اب مسئلہ فقہ کا یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے پر عمل کرنا چاہئے اور جس سمت کو اس کی رائے میں ترجیح ہو۔۔۔ وہ اسی طرف نماز پڑھے۔۔۔ اگر دوسرے کی رائے کے موافق پڑھے گا تو نماز نہیں ہوگی۔۔۔ خواہ وہ سمت واقع میں صحیح ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ اب یہ بات صریحاً ظاہر ہے کہ سمت صحیح کی طرف ان چاروں میں سے ایک ہی کی نماز ہوئی ہوگی۔۔۔ لیکن عنداﷲ سب ماجور ہیں…
ان دونوں نظیروں سے ثابت ہوگیا کہ اختلاف کی حالت میں جس کا بھی اتباع کیا جائے گا حق تعالیٰ کے نزدیک وہ مقبول ہے۔۔۔ حتیٰ کہ اگر خطا پر بھی ہے تب بھی کوئی بازپرس نہیں بلکہ اجر ملے گا تو ثابت ہوگیا کہ دین کے راستے میں کوئی ناکام نہیں۔۔۔ بلکہ اگر وہ مقلد ہے تو اس کو معذور سمجھا جائے گا اور اگر مجتہد ہے تو اس پر بھی ملامت نہیں بلکہ ایک اجر اس خطا کی صورت میں بھی ملے گا۔۔۔
علمائے حقانی کے اختلاف کے بارے میں پہلے اس کی تحقیق کرلو کہ دونوں علماء حقانی ہیں یا نہیں۔۔۔ جب تحقیق ہوجاوے کہ دونوں حقانی ہیں تو اب دونوں کی اتباع میں گنجائش ہے۔۔۔ جس کی بھی موافقت کرلی جائے گی۔۔۔ تعمیل حکم ہوجائے گی اور وہ موجب رضائے خدا ہوگی… ایسا بکثرت ہوا کہ ایک بات کسی مجتہد کی سمجھ میں آئی اور انہوں نے اپنے دوسرے ہم عصر اور ہم رتبہ سے مشورہ کیا یا بدون ان کے مشورہ کے کسی دوسرے نے ان کو از خود بتادیا کہ آپ کی یہ رائے صحیح نہیں ہے اور ان کے دل نے قبول کرلیا یا ان دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہ ہوئی بلکہ خود ان کو اپنے تجربہ یا مزید تحقیق سے کوئی دوسری رائے زیادہ صحیح معلوم ہوئی تو انہوں نے اپنی رائے سے فوراً رجوع کرلیا لیکن جب تک کہ دوسری تحقیق ان کے اجتہاد کے موافق ہوئی اپنی پہلی تحقیق کو نہیں چھوڑا۔۔۔
خلاصہ یہ کہ انہوں نے جو کچھ کیا محض للہیت سے کیا اور للہیت ہی ان کے اتفاق و اختلاف کا سبب ہوئی۔۔۔ پھر بتایئے ایسے شخص کو دوسرے کی تقلید کیسے جائز ہوسکتی ہے ایسا شخص اگر تقلید کرے گا تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اس نے وہ تحقیق تو چھوڑ دی جو خالصاً لوجہ اﷲ اسے حاصل ہوئی تھی اور کسی مصلحت سے رائے کو بدل لیا تو ایسا شخص جو للہیت کو چھوڑ کر مصلحت کا اتباع کرے مجتہد تو کیا ہوتا ایک ادنیٰ درجہ کا عالم بھی کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔۔۔
اس تقریر سے یہ مضمون خوب ذہن نشین ہوگیا ہوگا کہ مجتہد کو دوسرے کی تقلید جائز نہیں اگر وہ کسی مصلحت سے ایسا کرے گا تو مواخذہ ہوگا ۔۔۔۔(خطبات ۔۔۔اصلاح اعمال )
۔’’شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا نوراﷲ مرقدہ ارشاد فرماتے ہیں :۔
۔’’میرے والد صاحب قدس سرہ (مولانا محمد یحییٰ صاحب) اور میرے حضرت قدس سرہ کے درمیان متعدد مسائل میں اختلاف تھا مگر چونکہ مجادلہ اور مخالفت نہیں تھی اس لئے عوام تو عوام ، خواص کو بھی اس کی ہوا نہیں لگتی تھی۔۔۔ ان میں سے ایک مسئلہ مثال کے طور پر لکھتا ہوں۔۔۔ قربانی کے جانور میں دو تین شرکاء اگر ایک حصہ مشترک نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا کرنا چاہیں بشرطیکہ خود ان کے حصے اپنے بھی اس جانور میں ہوں۔۔۔
یہ صورت میرے والد صاحب (مولانا محمد یحییٰ صاحب ) کے نزدیک جائز تھی اور میرے حضرت (مولانا خلیل احمد صاحب) کے نزدیک ناجائز ، میرے والد صاحب اوپر رہتے تھے اور حضرت قدس سرہ کا قیام نیچے رہتا تھا۔۔۔
قربانی کے زمانہ میں متعدد لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ مسئلہ حضرت کے پاس پوچھنے آئے تو میرے حضرت یوں فرمادیا کرتے تھے کہ میرے نزدیک تو ناجائز ہے مولانا یحییٰ کے نزدیک جائز ہے تو اوپر جاکر ان سے مسئلہ پوچھ لے وہ تجھے اجازت دے دیں گے تو اس پر عمل کرلینا‘‘ (آپ بیتی نمبر ۴ صفحہ ۹۴)
ایک دوسری جگہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نوراﷲ مرقدہ ارشاد فرماتے ہیں:’’حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا مقولہ ہے کہ ’’صحابہ کرام کے کسی مسئلہ میں اتفاق سے مجھے اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی اختلاف سے‘‘ کیونکہ اختلاف کی وجہ سے گنجائش رہتی ہے۔۔۔ یہ اختلاف بڑی مبارک چیز ہے۔۔۔ البتہ مخالفت بری چیز ہے۔۔۔
خود میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت کے اخیر زمانہ میں شعبان کے گڑ بڑ سے یہ بحث شروع ہوئی کہ آج مطلع صاف ہے۔۔۔ تیس روز پورے ہوجانے کے بعد اگر شام کو رویت نہ ہوئی تو کل روزہ رکھنا چاہئے یا نہیں؟ حضرت کا ارشاد مبارک تھا کہ شعبان کے چاند میں جس شہادت پر مدار تھا۔۔۔ بعض وجوہ سے شرعی حجت نہ تھی۔۔۔ اس لئے روزہ ہے اور میرا ناقص خیال تھا کہ وہ حجت شرعی سے صحیح ہے۔۔۔ اس لئے کل کا روزہ نہیں ہے۔۔۔ دن بھر بحث رہی۔۔۔ شام کو چاند نظر نہ آیا۔۔۔ حضرت نے طے فرمادیا کہ میں روزہ رکھوں گا۔۔۔ میں نے عرض کیا میرے لئے کیا ارشاد ہے؟ فرمایا کہ میرے اتباع کی ضرورت نہیں۔۔۔ سمجھ میں آگیا ہو تو روزہ رکھو ورنہ نہیں۔۔۔ بالآخر حضرت کا روزہ تھا اور میرا افطار۔۔۔ حضرت کے خدام میں متعدد ایسے تھے جنہوں نے افطار کیا اور متعدد نے روزہ رکھا۔۔۔ حضرت نے ان سے دریافت بھی نہ فرمایا کہ تم نے افطار کیوں کیا؟‘‘ (تیس مجالس )
حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اﷲ تعالیٰ علماء و مفتیان کرام کیلئے تحریر فرماتے ہیں:’’اختلاف نظر کا وقوع شرعاً و عقلاً لازم ہے اور حدود شرعیہ کے اندر محمود ہے۔۔۔ اس بارے میں میرا ایک مستقل رسالہ ہے ’’کشف الخفاء عن حقیقت اختلاف العلماء‘‘ اس حقیقت کو ذہن نشین کرکے حدود شرعیہ کے اندر اختلاف نظر کے تحمل کی عادت ڈالیں۔۔۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ (۱۶۔۔۔۴۴) اس میں اس حقیقت کی وضاحت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تبیین و تشریح کے بعد بھی کئی احکام میں تفکر کی ضرورت پیش آئے گی اس میں تفکر کی دعوت ہے اور تفکر میں تو لازماً اختلاف ہوگا۔۔۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات میں ایسے قصے پیش آئے کہ صحابہ کرامؓ کا آپس میں کسی مسئلے پر اختلاف ہو ا تو ہر ایک نے اپنی رائے پر عمل کیا…
حضرات فقہاء رحمہم اﷲ تعالیٰ مختلف تحقیقات نقل فرمانے کے بعد اپنی رائے پیش کردیتے ہیں! دوسروں پر زیادہ جرح اور ردوقدح نہیں کرتے۔۔۔ علامہ ابن عابدین ؒ۔۔۔ شرح عقود رسم المفتی‘‘ میں بار بار لٰکن لٰکن لٰکن کے تحت اقوال مختلفہ نقل کرتے چلے جاتے ہیں کہ آخری فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔ ان حضرات میں سے کسی کا یہ اصرار نہیں ہوتا کہ جو میں کہہ رہا ہوں لازماً وہی قبول کیا جائے…
حضرت امامؒ کا یہ طریقہ تھا کہ اپنے تلامذہ کے ساتھ کسی مسئلہ پر غور فرماتے۔۔۔ بعض مسائل پر کئی کئی دن اجتماعی غوروفکر کے باوجود بھی اتفاق نہ ہوتا تو فرماتے کہ سب دو دو رکعت نفل پڑھیں۔۔۔ نفل پڑھ کر پھر مسئلے پر غور فرماتے اگر پھر بھی اتفاق نہ ہوتا تو فرماتے کہ ہر ایک اپنی تحقیق کے مطابق عمل کرے۔۔۔ استاذ اپنے تلامذہ سے فرما رہے ہیں کہ تحقیق کے بعد اپنی اپنی رائے پر عمل کریں۔۔۔ اختلاف نظر کا تحمل کریں تحمل کی عادت ڈالیں… ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ گلے سے پکڑے ہی رہے چھوڑے ہی نہیں۔۔۔ تحقیقات ہوگئیں۔۔۔ غور وفکر ہوگیا بحث ہوگئی اب اگر اتفاق ہوتا ہے تو ٹھیک اور نہیں ہوتا تو کچھ حرج نہیں…
حضرت گنگوہیؒ کے پاس کوئی مسئلہ پوچھنے آتا اسے مسئلہ بتا کر یہ بھی فرمادیتے کہ فلاں کی رائے اس مسئلہ میں میری رائے کے خلاف ہے چاہو تو ان کی رائے پر عمل کرلو… عوام کے سامنے دوسرے علماء پر جرح نہ کریں علماء کے اختلاف کو عوام میں شائع کرنا جائز نہیں۔۔۔‘‘۔
(جواہر الرشید ۶:۲۹۔۔۔۳۳) (ماخوذ از اسلامی بینکاری)
