اختلاف رائے جائز ہے مگر گستاخی حرام ہے !!! (305)۔
علمائے کرام کے درمیان اختلاف رائے اگر ہوجائے اور ہوجاتا ہے۔ تو اگر یہ اختلاف حجت کی بنا پر ہو تو جائز ہے لیکن تمسخر اور تحقیر کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔ اسی طرح ادنیٰ سی تضحیک بھی کسی حالت میں جائز نہیں ہے۔ کیونکہ جو بھی اہل اللہ علمائے حق ہیں وہ نائب رسول ہیں۔ اُنکو نیابت رسول کا منصب جو حاصل ہے اُسکا احترام رکھنا اور اس منصب کی عظمت کو قائم رکھنا بھی ضروری ہے۔
اب مثال دیکھئے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کا پچاسوں مسائل میں اختلاف ہے اور یہ اختلافِ امت رحمت ہے لیکن مجال ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں تضحیک اور تحقیر کا پہلو نکلتاہے۔ دونوں حضرات واجب التعظیم ہیں۔ اختلاف جائز مگر کسی بھی شافعی المسلک شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا تمسخر بنائے یا کسی بھی حنفی کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی شافعی شخص کا مذاق بنائے۔ کیونکہ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کا کچھ مسائل میں اگرچہ اختلاف ہومگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ دونوں آفتاب و ماہتا ب ہیں دونوں کا نُورپوری امت میں پھیل رہا ہے اور لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ دونوں سے برکتیں حاصل ہورہی ہیں۔
تو اختلاف رحمت ہےاور گستاخی جہالت ہے۔
دیکھئے ! موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو نصیحت کی تو قوم نے کہا:۔
اے موسیٰ! کیا آپ ہم سے مذاق کررہے ہیں؟
تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔
یعنی ہنسی مذاق اڑانا اور تمسخر کرنا جاہلوں کی علامت ہے۔ مگر دوستو! آج کل سوشل میڈیا کی کارستانیوں کی وجہ سے جاہلوں کو سب سے بڑا عالم سمجھا جارہا ہے۔ نعوذباللہ۔۔۔
مکرر عرض کرتا ہوں کہ جو سب سے بڑا جاہل ہوگا یعنی دوسرے مسلک اور دوسرے علمائے کرام کا خوب زبردست مذاق اڑائے گا، خوب اُنکی تضحیک کرے گا تو وہ بڑا عالم سمجھا جائے گا حالانکہ حقیقت یہ ہے وہ کہ بڑا جاہل ہے۔
اختلاف اپنی جگہ مگر تضحیک ، تمسخر اور تحقیر خواہ ادنیٰ سی ہی کیوں نہ ہو وہ غلط ہی ہوگی۔ اس لئے اس فرق کو سمجھیں۔ جو بھی شخص اپنے مخالف مسلک کو نیچا دکھانے میں ماہر ہو تو وہ کتنا ہی متبحر اور محقق عالم ہو وہ جاہلوں میں شمار ہوگا کیونکہ استہزاء کرنے والوں کو ہمیشہ انبیاء کے مخالفین (شیطان کے متبعین)میں شمار کیاگیا ہے۔ ہر نبی کے مخالفین کی ایک صفت مشترک ہے کہ وہ خوب تمسخر اور استہزاء کیا کرتے تھے۔
اس لئے دوستو! اس نصیحت کو اپنے ذھن میں بٹھا لوکہ کوئی بھی گستاخ،بدتمیز، بدکلام شخص کبھی عالم نہیں ہوسکتا۔ اور بالخصوص علانیہ طور پر بدکلام شخص تو اس لائق ہی نہیں کہ اُسکی کسی بات کو سنا جائے اگرچہ وہ چند باتیں ٹھیک ہی کیوں نہ کررہا ہو۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہو کہ اچھی باتیں تو لے لینی چاہئےتو خوب سمجھ لو کہ اگر اچھی باتیں کرنے والے اچھے لوگ، اہل حق اور علمائے کرام موجود ہیں تو بدکلام، بدتہذیب اور گستاخ شخص سے اچھی باتیں لے لینے کی کیا مجبوری پیش آگئی ہے ؟؟؟
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

